این اے 18 دھاندلی کیس: تحقیقات روکنے کا حکم امتناع ختم
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے این اے - 18 ہری پور میں انتخابی دھاندلی کیس کی سماعت کی۔ قائم مقام چیف جسٹس نے فیصلہ سنایا اور این اے - 18 ہری پور میں دھاندلی کی تحقیقات روکنے کا حکم امتناع ختم کردیا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ فریقین کو سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے - 18 ہری پور میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے راہنما پاکستان تحریک انصاف عمر ایوب کی درخواست پر جاری حکم امتناع ختم کردیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے این اے - 18 ہری پور میں انتخابی دھاندلی کیس کی سماعت کی، جس کے بعد اہم پیش رفت ہوئی۔
قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے فیصلہ سنایا اور این اے - 18 ہری پور میں دھاندلی کی تحقیقات روکنے کا حکم امتناع ختم کردیا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ فریقین کو سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کی درخواست پر عدالت نے دھاندلی کی تحقیقات پر حکم امتناع جاری کردیا تھا تاہم اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع ختم کر دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائی کورٹ دھاندلی کی تحقیقات قائم مقام چیف جسٹس ہری پور میں
پڑھیں:
سپریم کورٹ ججز سنیارٹی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہونے والے تینوں ججوں نے وکیل نہ کرنے کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کردیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے روبرو ججز سنیارٹی کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہونے والے تینوں ججز نے وکیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا مستقل چیف جسٹس تعینات نہیں کیا جارہا، آئنی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر خارج کرتے ہوئے سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی.(جاری ہے)
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تینوں ججز کو نوٹس جاری کیا گیا تھا ان کا وکیل کون ہے؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے موقف اختیار کیا کہ مجھے تینوں ججز کی جانب سے پیغام ملا ہے جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف سپریم کورٹ میں کوئی وکیل نہیں کر رہے تینوں ججز نے کہا ہے کہ آئینی بینچ جو بھی فیصلہ کرے گا انہیں قبول ہوگا. اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا مستقل چیف جسٹس نہیں لگا رہے جوڈیشل کمیشن کے ایجنڈے میں اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس کا معاملہ نہیں، مستقل چیف جسٹس کی تقرری کے لیے 14 روز قبل کمیشن کو آگاہ کیا جاتا ہے، فی الحال اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری نہیں ہو رہی انہوں نے کہا کہ 2 مئی کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں پشاور اور بلوچستان ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کا معاملہ زیر غور آئے گا. دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست واپس لینے کی میں نے کوئی استدعا نہیں کی میری ہدایت کے بغیر درخواست واپسی کی تحریری استدعا کی گئی ہے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بار ایسوسی ایشن کی مجلس عاملہ نے درخواست واپس لینے کی قرارداد پاس کی ہے متاثرہ ججز نے خود الگ سے درخواست دائر کر رکھی ہے کیابار ایسوسی ایشن قرارداد کے مطابق ایسوسی ایشن کی درخواست مجلس عاملہ کی اجازت کے بغیر دائر کی گئی تھی؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار خود درخواست واپس لے رہی ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر خارج کردی جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا کسی صوبائی حکومت نے بھی کوئی تحریری جواب جمع کرایا ہے؟. ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی آئینی درخواست کی حمایت کرتے ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کوئی جواب بھی جمع کرایا؟ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ابھی جواب جمع کروانا ہے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے آپ جواب جمع کرا دیں. جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج صرف یہ دیکھا کہ تمام فریقین کو نوٹس موصول ہوگئے ہم فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیں گے جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں ہم باقاعدہ سماعت منگل سے شروع کریں گے وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کرایا ہے وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کی آمادگی کا بیان جمع نہیں کرایا اس معاملے پر چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ چیف جسٹسز سمیت صدر کی آمادگی کا بیان بھی جمع نہیں کرایا گیا. اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سارا پراسیس سب کی رضامندی سے ہوا ہے، یہ معاملہ متنازع نہیں ہے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر متنازع معاملہ نہیں، تو آپ کو آمادگی کے بیانات جمع کرانے چاہئیں اٹارنی جنرل نے کہا جی ہم وہ جمع کرا دیں گے جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی. سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ لکھواتے ہوئے عدالت نے کہا کہ تمام ایڈووکیٹ جنرلز متعلقہ ہائیکورٹس سے مشاورت کرکے تحریری جواب جمع کرائیں، تحریری جوابات میں سنیارٹی لسٹ بھی فراہم کی جائے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تینوں ججوں نے پیغام بھیجا وہ وکیل نہیں کرتا چاہتے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججوں نے بذریعہ اٹارنی جنرل بتایا آئینی بینچ جو بھی فیصلہ کرے قبول ہوگا گزشتہ سماعت پر منیر اے ملک نے بتایا تھا کہ 18 اپریل کو جوڈیشل کمیشن اجلاس ہونے جا رہا ہے 18 اپریل کی جوڈیشل کمیشن میٹنگ کے سبب آج ایک دن پہلے کیس فکس کیا اٹارنی جنرل نے بتایا آج جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہورہا ہے اٹارنی جنرل نے کہا آج کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں آئینی بنچز میں 2 نئے ججز کی نامزدگی زیر غور آئے گی. حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے واضح انداز میں پوچھا اسلام آباد ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی کا اجلاس کب ہوگا، اٹارنی جنرل نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں مستقل چیف جسٹس کے لیے کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا اٹارنی جنرل نے کہا 2 مئی کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں پشاور ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز کے لیے اجلاس ہوگا عدالت نے لکھوایا کہ آئینی بینچ نے پوچھا جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جوڈیشل کمیشن رولز 2024 کی شق 9 اور 10 کا حوالہ دیا اٹارنی جنرل نے بتایا رولز کے تحت جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کے لیے 15 دن پہلے نوٹس دیا جاتا ہے 15 دن قبل نوٹس کا جواز رولز کے مطابق نامزدگیاں طلب کرنا بتایا گیا ہے. منیر اے ملک نے بتایا وفاقی حکومت نے جواب جمع کرایا تاہم وفاقی حکومت کے جواب میں ججز ٹرانسفر کیساتھ متعلقہ ریکارڈ نہیں لگایا گیا 5 ججز کے وکیل نے کہا کہ جز ٹرانسفر کے لیے لاہور ہائیکورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ، چیف جسٹس آف پاکستان کی رضامندی کا ریکارڈ فائل نہیں کیا گیا جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا وہ تمام متعلقہ ریکارڈ بھی جمع کرا دیں گے بعد ازاں کیس کی سماعت 22 اپریل کو ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی.