کھاد کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
کمپی ٹیشن کمیشن نے 2020ء میں کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر فرٹیلائزر کمپنیوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا، کمپی ٹیشن کمیشن نے فرٹیلائزر کمپنیوں سے اس حوالے سے تفصیلات طلب کی تھیں۔ فرٹیلائزر کمپنیوں نے کمیشن کو جواب جمع کرانے کے بجائے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرکے سٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کھاد کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ کیا، سماعت کے دوران فرٹیلائزر کمپنیوں اور کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان کے وکلاء نے دلائل دیئے۔ وکیل فرٹیلائزر کمپنیز کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کی کاسٹنگ کی معلومات رازدارانہ ہوتی ہیں لہٰذا یہ معلومات کمپی ٹیشن کمیشن کو فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ وکیل کمپی ٹیشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی ریگولیشنز کے مطابق تمام کمپنیاں کاسٹ آڈٹ ایس ای سی پی کو جمع کرانے کی پابند ہیں، کمپنیاں ایس ای سی پی کو یہ معلومات فراہم بھی کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کمپنیاں ایک ریگولیٹر کو تو کاسٹ آڈٹ کی معلومات جمع کراتی ہیں لیکن دوسرے ریگولیٹر کو یہی معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہیں۔ واضح رہے کہ کمپی ٹیشن کمیشن نے 2020ء میں کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر فرٹیلائزر کمپنیوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا، کمپی ٹیشن کمیشن نے فرٹیلائزر کمپنیوں سے اس حوالے سے تفصیلات طلب کی تھیں۔ فرٹیلائزر کمپنیوں نے کمیشن کو جواب جمع کرانے کے بجائے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرکے سٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کمپی ٹیشن کمیشن نے کھاد کی قیمتوں
پڑھیں:
برطانوی سپریم کورٹ کا ٹرانس جینڈر خواتین سے متعلق تاریخی فیصلہ آگیا
برطانیہ کی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ مرد و عورت صرف دو ہی جنس ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے ججز نے لکھا کہ ایک عورت سے مراد وہ ہے جس نے عورت کے طور پر جنم لیا ہو۔
ججز نے مزید لکھا کہ قانونِ مساوات (Equality Act 2010) میں عورت کی تعریف قانونی صنفی بنیاد پر نہیں بلکہ حیاتیاتی جنس کی بنیاد پر کی جائے گی یعنی نومولود کس جنس کے طور پر پیدا ہوا۔
یہ فیصلہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم "فار ویمن اسکاٹ لینڈ" کے کیس کے بعد آیا، جس نے اسکاٹش حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
تنظیم کا مؤقف تھا کہ قانون میں "جنس" اور "خاتون" کی تعریف صرف ان افراد کے لیے ہونی چاہیے جو پیدائشی طور پر خواتین ہیں۔
عدالت نے موقف اختیار کیا کہ یہ فیصلہ کسی ایک فریق کی فتح یا دوسرے کی شکست نہیں بلکہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے۔
ججز نے مزید واضح کیا کہ یہ قانون ٹرانس جینڈر افراد کو بھی امتیازی سلوک سے بچاؤ فراہم کرتا ہے۔
ادھر اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر جان سوئنی نے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کے اثرات پر غور کرے گی۔
برطانوی حکومت کا بھی کہنا تھا کہ یہ فیصلہ خواتین اور انھیں خدمات فراہم کرنے والوں کو اعتماد فراہم کرے گا۔
دوسری جانب کنزرویٹیو پارٹی کی رہنما کیمی بیڈینوک نے اسے ان خواتین کی فتح قرار دیا جنہیں صرف سچ بولنے پر تنقید یا ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مصنفہ جے کے رولنگ نے اس فیصلے کو سراہا اور اُن تین "بہادر اور ثابت قدم" خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے یہ کیس عدالت تک پہنچایا۔
تاہم گرین پارٹی کی میگی چیپ مین نے فیصلے کو انسانی حقوق کے لیے تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ اس سے ٹرانس افراد کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
قانونی ماہر ڈاکٹر نک مک کیرل کے مطابق، یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر کوئی ٹرانس جینڈر خاتون کسی خواتین کے لیے مخصوص مقام پر روکی جاتی ہے تو وہ اب یہ دلیل نہیں دے سکتی کہ اسے خاتون ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔
کیس کا پس منظریہ قانونی تنازع 2018 میں شروع ہوا جب اسکاٹش پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں عوامی اداروں میں صنفی توازن کو یقینی بنانے کے لیے ٹرانس جینڈرز افراد کو خواتین کے کوٹے میں شامل کیا گیا تھا۔