بجلی کی مد میں وفاق ہمارا قرض دار ہے، ہمارا صوبہ بجلی بناتا ہے لیکن ہمیں ہی بجلی نہیں ملتی ، شاندانہ گلزار
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
رکن قومی اسمبلی و رہنماء پی ٹی آئی شاندانہ گلزار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے قسم کھائی ہے خیبر پختونخوا میں انفرااسٹرکچر پر کام نہیں کرنا۔ بجلی کی مد میں وفاق ہمارا قرض دار ہے، ہمارا صوبہ بجلی بناتا ہے لیکن ہمیں ہی بجلی نہیں ملتی۔
پشاور میں تحریک انصاف کے رہنماؤں شاندانہ گلزار اور معظم بٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی مد میں وفاق ہمارا قرض دار ہے، ہمارا صوبہ بجلی بناتا ہے لیکن ہمیں ہی بجلی نہیں ملتی، ہمیں 100 فیصد بجلی میں سے 10 فیصد بجلی چاہیے۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ معظم بٹ نے مائنز اینڈ منرلزبل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کا مسودہ امریکا اور برطانیہ کے اشتراک سے بنا ہے۔ اے این پی نے خیبر پختونخوا میں اس بل کی مخالفت کی اور بلوچستان میں حمایت کی، ہمارے بھی کچھ ساتھیوں نے اس بل کی حمایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بل کی منظوری کی شکل میں عوام کو تیار رہنا چاہیے۔
ایڈووکیٹ معظم بٹ کا کہنا تھا کہ کے پی اسمبلی میں اگر یہ بل منظور ہوا تو اسے چیلینج کرِیں گے اور اس قانون کو عدالت میں بھی چیلنج کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
‘اوورسیز کنونشن بہت شاندار تھا لیکن کچھ غلطیاں بھی تھیں جنہوں درست ہونا چاہیے’
حکومت کی جانب سے منعقدہ اوور سیز پاکستانیز کنونشن میں بیرون ممالک سے آئے پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اوور سیز پاکستانی کنونشن میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، بیرون ممالک میں تعینات پاکستانی سفرا اور وفاقی وزرا سمیت مختلف شخصیات نے شرکت کی۔
2 روزہ اوور سیز کنونشن میں آئے پاکستانیوں نے اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا۔ وی نیوز اور پاکستان ناؤ کے اشتراک سے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے وی نیوز کے ہیڈ آفس میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
کانفرنس کے مہمانوں میں امریکا سے سید بلال گیلانی، لندن سے محمد شفیق، صدف عزیز اور فوزیہ حسین جبکہ متحدہ عرب امارات سے ڈاکٹر نورالصباح نے شرکت کی۔
وی نیوز کے چیف ایڈیٹر عمار مسعود اور وی نیوز انگلش سے عرفان غوری اور پاکستان ناؤ سے منیب نے کانفرنس کی میزبانی کی۔ اس کانفرنس میں مہمانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وسائل پہ، مسائل پہ سیر حاصل گفتگو کی۔
لندن میں مقیم اوور سیز پاکستانی صدف عزیز نے کہا کہ آرمی چیف اور وزیر اعظم پاکستان کا شکریہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اوور سیز پاکستانیوں کے لیے اچھا، زبردست اور کامیاب ایونٹ منعقد کروایا۔ جہاں تقریبا ہر اوور سیز پاکستانی کی اچھی مہمان نوازی کی گئی۔ انہوں مزید کہا کہ ہمارا اتنا اچھا استقبال کیا کہ شاید اس طرح ہمارے گھر والے بھی نہیں کرتے۔ تمام منسٹرز، آرمی چیف، وزیراعظم پاکستان اور وہاں موجود ہر آفیشل نے اوور سیز کی آمد کو بہت سراہا۔
صدف عزیز نے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت سی اچھی چیزیں بہت دیر سے ہوئیں۔ لیکن یہ پہلا قدم جو اٹھایا گیا ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جو ایک چھوٹی گرہ کھولی گئی ہے، اب یہ گرہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور دیگر چیزوں کو حل کرنے کے لیے اہم ہوگی۔
انہوں نے کہا باہر رہنے والے 70 فیصد پاکستانیوں کو پراپرٹی کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر ایونٹ کے دوران اچھی خاصی ڈسکشن کی گئی۔ تمام ممالک میں رہنے والے اوور سیز پاکستانیوں کے اور دیگر مسائل کو حل کرنے پر بھی بات چیت کی گئی۔ انہیں ان مسائل کو حل کرنے کی بھی راہ دکھائی گئی کہ کون سا مسئلہ کیسے اور کس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔
امریکا سے آئے اوورسیز پاکستانی سید بلال گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت ہی شاندار تقریب تھی جس کے ذریعے تمام اوورسیز پاکستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔ سب کو پروٹوکول دیا گیا مگر شاید کہیں بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی کمی بھی محسوس کی گئی ۔ جس میں سب سے زیادہ یہ تھا کہ کس قسم کے پراجیکٹس اوورسیز پاکستانیوں کے لیے موجود ہیں جن میں وہ انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کہیں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کن اداروں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ اور دیگر انویسٹمنٹ سے منسلک چیزوں کو بھی واضح ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی مدد کے لیے اوورسیز ہر وقت تیار ہیں۔ پاکستان میں انویسٹمنٹ سے متعلق قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایونٹ ایک بہت ہی منفرد تجربہ تھا۔ ویسے تو ہم سب پاکستان آتے ہی رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جائیداد کے بہت مسائل ہیں لیکن یہ جائیدادیں جن کو ضبط کیا جاتا ہے، اس کے پیچھے ہمارے اپنے رشتہ دار یا دوست احباب ہوتے ہیں جبکہ وہ حکومت کو الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک میں قانون کی پاسداری نہیں ہے۔ اس حوالے سے واقعی حکومت کو سختی کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت عالی شان ایونٹ تھا۔ 5 سے 6 ہزار لوگوں نے ایونٹ میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سوشل میڈیا ہے جس کو آزادی دینی چاہیے لیکن اس کی حدود بھی ہونی چاہئیں۔
’میں لندن میں رہتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر بہت پراپیگنڈا ہے۔ میں یہاں آیا ہوں۔ آزاد گھوم پھر رہا ہوں۔ مجھے تو کسی ایجنسی یا کسی نے کچھ نہیں کہا۔ میں تو تعلیم کے حوالے سے ایک پراجیکٹ شروع کر رہا ہوں۔ میں نے یہاں مختلف اداروں کو اپروچ کیا اور میری سب نے مدد کی۔‘
متحدہ عرب امارات میں مقیم اوورسیز پاکستانی ڈاکٹر نور الصباح کا کہنا تھا کہ جب ہمیں کنونشن کا پتہ چلا تو ہم سب بہت زیادہ خوش تھے کہ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے تجاویز دینے کا موقع ملے گا۔
امیدیں بہت زیادہ تھیں لیکن سب امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ یہاں کا جو نظام ہے وہ باہر کے ممالک سے 360 ڈگری مختلف تھا۔
انہوں نے کہا کہ اوورسیز ہونے کے ناتے ہمیں عادت نہیں ہے کہ ہم سے جو کہا جائے وہ نہ ملے۔ ہوٹل کی مس مینجمنٹ اور دیگر مسائل تھے۔ ہم یہاں آئے، کنونشن میں شرکت کی مگر بولنے کا موقع نہیں ملا۔ 2 دن کا کنونشن تھا۔ بہت سے غیر ضروری لوگ اسٹیج پر رہے۔ اوپن مائیک سیشن تھا وہ بھی مس یوز ہوا۔ بس حکومت کے حق میں نعرے ہی لگتے رہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل سے متعلق ان کی تجاویز کو نہ سنا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اچھی پہل تھی۔ امید ہے کہ وہ آگے ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ضروری کیبنٹ اور منسٹرز پہلی لائن میں بیٹھے تھے حالانکہ سب سے آگے اوورسیز پاکستانیوں کو ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہم پھر بھی اپنے ملک کے ساتھ ہیں اور ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہمارا ملک بہت سی چیزوں میں پیچھے ہے لیکن ہمیں مل کر اسے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لانا ہوگا۔
لندن میں مینٹل ہیلتھ کنسلٹنٹ اور اوورسیز پاکستانی فوزیہ حسین کا کہنا تھا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی اتنے زیادہ اوورسیز پاکستانی یہاں آئے۔ میں مینٹل ہیلتھ کنسلٹنٹ ہوں۔ ہمیں نیگیٹو چیزوں کو سائیڈ پر رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں آئے، بہت اچھا لگا۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پاکستان کے حوالے سے بہت منفی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں مگر یہاں آ کر جب حکومت کے تمام لوگوں کی باتیں سنیں تو احساس ہوا کہ چیزیں دور سے سننے میں اور پاس آکر دیکھنے میں بہت مختلف ہوتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں