امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو ایٹمی پروگرام پر معاہدہ طے پاسکتا ہے، ایران
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
ایران نے کہا ہے کہ اگر امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو ایٹمی پروگرام پر معاہدہ طے پاسکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران کو امریکا کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر معاہدہ طے پانے کا یقین ہے بشرطیکہ واشنگٹن حقیقت پسند ی کا مظاہرہ کرے، یہ بیان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کے دوسرے دور سے ایک روز قبل سامنے آیا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ماسکو میں مذاکرات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ اگر وہ ( امریکا ) سنجیدہ ارادے کا مظاہرہ اور غیر حقیقی مطالبات سے گریز کرے تو معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ ایران نے گزشتہ ہفتے عمان میں ہونے والے معاہدے پر مذاکرات کے پہلے مرحلے کے دوران امریکا کی سنجیدگی کو محسوس کیا ہے، واضح رہے کہ مذاکرات کا دوسرا دوسرا دور ہفتے کو روم میں طے ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ کسی معاہدے پر اتفاق نہیں کیا تو وہ ایران پر حملہ کردے گا۔
ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو پُرامن قرار دیتا ہےلیکن مغرب کا اصرار ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کا مقصد ایٹم بم بنانا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس ’ کسی بھی کردار، ثالثی اور مدد کرنے کے لیے تیار ہے جو ایران اور امریکا کے لیے فائدہ مند ہو۔’
ماسکو نے ماضی میں ایران کے جوہری مذاکرات میں ویٹو پاور رکھنے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن اور ایک سابقہ معاہدے کے دستخط کنندہ کے طور پر کردار ادا کیا ہے جسے ٹرمپ نے 2018 میں اپنی پہلی مدت کے دوران ترک کر دیا تھا۔
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے عراقچی کو صدر ولادیمیر پوتن کے لیے ایک خط کے ساتھ ماسکو بھیجا تھا تاکہ کریملن کو مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعہ کے روز کہا کہ امریکی انتظامیہ ایران کے ساتھ پرامن حل کی تلاش میں ہے لیکن اس کے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے اقدام کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایٹمی پروگرام پروگرام پر مذاکرات کے کا مظاہرہ کے ساتھ کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
ایران کا جوہری پروگرام(2)
اسلام ٹائمز: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران، اتنی جوہری صلاحیتیں حاصل کرنے کے بعد، خود کو ایٹمی طاقت ثابت کرنے کیلئے کوئی ایٹمی دھماکہ کیوں نہیں کرتا۔ ایران ہمیشہ سے یہ مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ اسکا جوہری پروگرام پُرامن اور سول مقاصد کیلئے ہے۔ تاہم، وہ "جوہری ابہام" کی پالیسی اپنا سکتا ہے، جسکے تحت وہ اپنی صلاحیت کا کھلے عام اعلان نہیں کریگا، لیکن اشاروں کنایوں میں یہ ظاہر کریگا کہ اسے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل ہے۔ ایران کی حکمتِ عملی ایک محتاط توازن پر مبنی ہے، جس میں وہ جوہری دہلیز تک پہنچ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کرتا ہے، مگر اسے عبور نہیں کرتا۔ تحریر: سید نوازش رضا
اگر ہم ایران کی اس جوہری ترقی کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی تکنیکی مہارت اور صلاحیت ایران کے پاس موجود ہونے کے باوجود، اب تک کوئی فیصلہ کن سیاسی عزم سامنے نہیں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ، حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہای کا وہ فتوٰی ہے، جس میں انھوں نے صراحت کے ساتھ یہ اعلان فرمایا ہے کہ ’’ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی اور استعمال کو حرام قرار دیتے ہیں۔‘‘ *یہ مؤقف ایران کی جوہری پالیسی کی بنیاد بن چکا ہے* تاہم یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اگر اسرائیل اور امریکا کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی یا غیر ضروری دباؤ برقرار رکھا گیا تو ایسی صورت میں ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران، اتنی جوہری صلاحیتیں حاصل کرنے کے بعد، خود کو ایٹمی طاقت ثابت کرنے کے لیے کوئی ایٹمی دھماکہ کیوں نہیں کرتا۔ ایران ہمیشہ سے یہ مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن اور سول مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، وہ "جوہری ابہام" کی پالیسی اپنا سکتا ہے، جس کے تحت وہ اپنی صلاحیت کا کھلے عام اعلان نہیں کرے گا، لیکن اشاروں کنایوں میں یہ ظاہر کرے گا کہ اسے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل ہے۔ ایران کی حکمتِ عملی ایک محتاط توازن پر مبنی ہے، جس میں وہ جوہری دہلیز تک پہنچ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کرتا ہے، مگر اسے عبور نہیں کرتا۔
مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے سیاسی و اسٹریٹیجک فائدہ حاصل کیا جائے۔ یورینیم کی 60 فیصد سے زائد افزودگی، جدید سینٹری فیوجز کی تنصیب، ہائپرسونک میزائل تجربات، اور سائنس دانوں سیاسی و فوجی قیادت کے مبہم بیانات کہ "ہم ضرورت پڑنے پر تیار ہیں۔" ایران اس خاموش مگر واضح پیغام کے ذریعے نہ صرف اپنی دفاعی حکمتِ عملی (Deterrence Policy) کو مستحکم کر رہا ہے بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی اپنی پوزیشن مضبوط کیے ہوئے ہے۔
ایران نے 9 اپریل 2025ء کو "نیشنل نیوکلیئر ٹیکنالوجی ڈے" کے موقع پر تہران میں واقع ایٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران (AEOI) کے صدر دفتر میں ایک بڑی نمائش کا انعقاد کیا، جس میں اس نے اپنی جدید ترین جوہری کامیابیوں کو نمایاں کیا۔ جس میں
1۔ IR-9 جدید سینٹری فیوج کی نقاب کشائی کی گئی، جو پچھلے ماڈلز سے 50 گنا زیادہ موثر ہے اور بہت تیزی سے یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 2۔ شیراز کے قریب ایک نئی زیر زمین نیوکلیئر تنصیب کا انکشاف کیا گیا، جسے "ماحولیاتی تحفظ اور سکیورٹی" کے جدید اصولوں کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔
3۔ ایران ساخت Made in Iran ریڈیو فارماسیوٹیکلز متعارف کرائے گئے، جو کینسر کے علاج اور تھراپی میں استعمال ہوں گے۔ جوہری توانائی کے ذریعے مقامی طور پر پولیو ویکسین تیار کی جا رہی ہے۔
4۔ بوشہر-2 جوہری بجلی گھر کے منصوبے پر پیش رفت دکھائی گئی، جسے روسی تعاون سے 2030ء تک مکمل کرنے کا ہدف ہے۔ تھوریم (Thorium) ایک قدرتی طور پر پایا جانے والی تابکار دھات ہے، جو جوہری ایندھن (nuclear fuel) کے طور پر یورینیم کا متبادل بن سکتا ہے۔ پر مبنی توانائی کے منصوبوں پر تحقیق کی جھلک بھی پیش کی گئی۔
5۔ جوہری تابکاری کے ذریعے خشک سالی سے بچنے والی گندم کی اقسام متعارف کرائی گئیں، جو کم پانی میں اگ سکتی ہیں۔ نانو ٹیکنالوجی (Nanotechnology) کی مدد سے صنعتی اشیاء کی پائیداری بڑھانے پر کام کا اعلان کیا گیا۔
6۔ ایران نے جوہری توانائی سے چلنے والی بیٹریاں تیار کی ہیں، جو مستقبل کے سیٹلائٹ مشنز میں استعمال ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔