لاہور ہائیکورٹ نے عمر قید کے مجرم کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ نے عمر قید کے مجرم کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔ جسٹس محمد طارق ندیم نے سلمان رفیق کی بریت کا حکم سنایا۔
قتل کیس کے مجرم قیدی کی طرف سے فیصل اقبال باجوہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ ٹرائل کورٹ نے شہری فیصل کے قتل میں سلمان رفیق کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ میں پولیس کے نجی ٹارچر سیل کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ
عمر قید کے مجرم کیخلاف تھانہ نواں کوٹ لاہور میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، پراسکیوشن کے گواہوں کی عدم موجودگی ٹرائل کے دوران ثابت ہوئی۔
وکیل فیصل باجوہ ایڈووکیٹ کے مطابق عدم موجودگی ثابت ہونے کے باوجود ٹرائل کورٹ نے سزا سنائی گئی۔
دوسری طرف پراسکیوشن کی طرف سے قیدی کی بریت کی مخالفت کی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیے کہ بظاہر وکیل دفاع کا مئوقف درست ہے کہ گواہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ ٹرائل کورٹ نے طے شدہ قانونی اصولوں کیخلاف سزا سنائی۔
عدالت نے تفصیلی دلائل سننے کے بعد قیدی سلمان رفیق کو بری کر دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بری عمر قید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے مجرم
پڑھیں:
سانحہ 9 کے دوران پولیس افسر کے دانت توڑنے کا کیس، ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں فیصلے کی ہدایت
9 مئی کیس میں ملزم رضا علی کی درخواست ضمانت پر سماعت پر دلائل دیتے ہوئے وکیل صفائی وکیل سمیر کھوسہ نے کہا کہ رضا علی اور زین العابدین پر ایک ہی پولیس افسر کا دانت توڑنے کا الزام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ 9 مئی پر پنجاب حکومت کی سپریم کورٹ میں جمع کردہ رپورٹ کیا کہتی ہے؟
وکیل صفائی کے مطابق پولیس افسر نے دانت توڑنے کے جرم میں پہلے زین العابدین کو شناخت کیا بعد میں رضا علی کو، ایک ہی کام 2 مختلف لوگ کیسے کر سکتے ہیں؟
وکیل سمیر کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق شناخت کرنے والا پولیس اہلکار تو زخمی بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ رضا علی تو واقعہ کے وقت نجی ہوٹل میں تھا جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔
اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے جوابی دلائل میں عدالت کو بتایا کہ رضا علی کو جناح ہاؤس سے گرفتار کیا گیا، کیس کا چالان جمع ہوچکا ہے۔
اس موقع پر کیس کی سماعت کرنے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ مناسب ہوگا درخواست ضمانت واپس لے لیں، نہیں چاہتے کہ کسی بھی فریق کیخلاف کوئی آبزرویشن آئے۔
عدالت نے ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں فیصلے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی، تاہم وکیل صفائی کا مؤقف تھا کہ 4 ماہ میں فیصلے کے حکم پر تحفظات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرنے کے لیے دائر مقدمات مقرر
بعد ازاں چیف جسٹس نے سمیر کھوسہ، سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کو چیمبر میں بلا لیا اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احمد رضا گیلانی کو بھی چیمبر آنے کی ہدایت کی۔
جسٹس نے آگاہ کیا کہ تمام کیسز کا حکم نامہ تحریر کر رہے ہیں جو شامل کروانا یا نکلوانا ہو دونوں کروا سکتے ہیں۔
عدالتی ہدایت پر وکلا چیف جسٹس کے چیمبر روانہ ہو گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سانحہ 9 مئی سپریم کورٹ