امریکہ کے ساتھ مذاکرات: کیا یورپ یوکرین کے معاملے میں اہمیت اختیار کر گیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اپریل 2025ء) امریکہ، فرانس اور یوکرین کے اعلیٰ حکام نے جمعرات 17 اپریل کو پیرس میں مذاکرات کے لیے ملاقات کی، جس میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ایک بار پھر یورپی حکام کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی زیر قیادت جنگ بندی کی یہ کوششیں سست روی کا شکار ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے ذاتی طور پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی صدارتی نمائندے اسٹیو وِٹکوف کا استقبال کیا، جنہوں نے حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ذاتی طور پر ملاقات کی۔
فرانسیسی حکومت کے ایک ذریعے نے مذاکرات کو 'مثبت اور تعمیری‘ قرار دیا اور بتایا کہ اگلے ہفتے لندن میں اہم یورپی، یوکرینی اور امریکی حکام کے ساتھ مزید بات چیت کی جائے گی۔
(جاری ہے)
اس ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا، ''میرا خیال ہے کہ امریکیوں کو اس انداز میں کام کرنے میں دلچسپی نظر آتی ہے۔‘‘
برطانیہ اور جرمنی کے اعلیٰ حکام کے علاوہ یوکرین کے صدارتی مشیر آندری یرماک بھی پیرس میں موجود تھے۔
مذاکرات سے قبل ماکروں کے دفتر نے کہا تھا کہ ان کا مقصد ''یوکرین میں روسی جارحیت کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات پر پیش رفت کا جائزہ لینا ہے۔‘‘ ’ہمیں قاتلوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے‘، زیلینسکیاس سال جنوری میں اپنی حلف برداری سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین میں جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کا عہد کیا تھا، جو فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد ٹرمپ نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کریملن کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا آغاز کر کے یورپی رہنماؤں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور ان روایتی اتحادیوں کو نظر انداز کر دیا، جنہوں نے روس سے لڑتے ہوئے امریکہ جیسے یوکرین کو اربوں روپے دیے۔
ان مذاکرات میں ابھی تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ چند ہفتے قبل پوٹن نے جنگ بندی کے لیے امریکہ اور یوکرین کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس پر ٹرمپ انتظامیہ نے برہمی کا اظہار کیا۔
جمعرات کے روز یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے پیرس میں ملاقات کرنے والوں سے کہا کہ وہ کریملن پر دباؤ ڈالیں۔
انہوں نے ٹیلی گرام پر لکھا: ''روس ہر دن اور ہر رات کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمیں قاتلوں پر دباؤ ڈالنا ہو گا.
روس میں کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے ان مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ''بدقسمتی سے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپیوں کی جنگ جاری رکھنے پر توجہ مرکوز ہے۔‘‘ ٹرانس اٹلانٹک 'تجدید تعلقات‘وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپکی دوسری مدت کے پہلے مہینے امریکہ اور یورپ کے تعلقات کے لیے انتہائی چیلنجنگ رہے ہیں اور ایسا صرف یوکرین مذاکرات میں ہی نہیں ہوا۔
حالیہ ہفتوں میں، ایک تجارتی جنگ کا آغاز، جس میں امریکہ میں درآمد کی جانے والی تقریباﹰ تمام اشیاء پر 10 فیصد محصولات عائد کیے گئے تھے، یورپ کے لیے بھی ایک بڑا جھٹکا تھا۔
جب روبیو نے دو ہفتے قبل برسلز میں اپنے نیٹو ہم منصبوں سے ملاقات کی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق یورپی یونین کے رکن ممالک سے ہے، تو انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اب بھی دفاعی اتحاد اور اس کے یورپی شراکت داروں کی قدر کرتا ہے، لیکن بہت سے اتحادیوں نے ٹرمپ کے محصولات اور امریکہ کی جانب سے جی ڈی پی کا پانچ فیصد دفاع پر خرچ کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
اس کے بعد سے ٹرمپ انتظامیہ تجارتی اقدامات کے حوالے سے اپنے سخت بیانات سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس حوالے سے مذاکرات کے لیے تین ماہ کے وقفے کی بات کر رہی ہے۔
اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی کے جمعرات 17 اپریل کو واشنگٹن کے دورے کے موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کی توقع کر رہے ہیں، جو ممکنہ طور پر محصولات کے تنازعے سے نکلنے کا اشارہ ہے۔
کیا یورپ دوبارہ اہمیت حاصل کر رہا ہے؟چونکہ امریکہ یوکرین سے دور ہو رہا ہے اور روس کے ساتھ ممکنہ مفاہمت کو فروغ دے رہا ہے، اس موقع پر ماکروں، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ مل کر قریب 30 ممالک کے ایک گروپ کے طور پر یوکرین کے حوالے سے ممکنہ خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ دونوں رہنما بین الاقوامی فوجیوں پر مشتمل ایک ''ری اشورنس فورس‘‘ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تاکہ جنگ کے بعد کے منظر نامے میں مزید روسی دراندازی کو روکنے کو یقینی بنایا جا سکے۔
کریملن نے اس اقدام کو اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔تاہم نیٹو ممالک کے بہت سے عہدے داروں کا خیال ہے کہ اس طرح کی فورس کو قابل عمل ہونے کے لیے کسی نہ کسی طرح کی امریکی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
لندن میں فالو اپ مذاکرات کے بارے میں بتانے والے فرانسیسی حکومت کے اسی ذریعے کے مطابق انہیں یقین ہے کہ امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں 'فرانکو-برطانوی‘ اقدام کو بہت سراہا ہے۔
یورپی عہدے داروں کے لیے جمعرات کو ہونے والے مذاکرات نے، تعطل کے شکار مذاکرات میں خود کو مکمل طور پر دوبارہ شامل کرنے اور انہیں اپنے حق میں ڈھالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مذاکرات کے دوران پیش کی گئی کچھ شرائط یوکرین اور یورپی یونین دونوں کے لیے ناقابل قبول رہی ہیں۔
یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے مذاکرات شروع ہونے سے قبل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ یہ پہلا اچھا قدم ہے: ''یہ اس پر بہت زیادہ منحصر ہے ... کہ وہ یورپیوں کو مستقبل میں مذاکرات میں کس طرح مؤثر طور پر شامل کرتے ہیں۔
‘‘لیکن یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی تجزیہ کار میری ڈومولین معاملات کو قدرے مختلف انداز میں دیکھتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے لیے یہ ملاقات یورپیوں کے بارے میں ہے، جو امریکہ کو یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ یوکرین کے مستقبل اور یوکرین کے مستقبل کی سلامتی میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ یہ سمجھ رہا ہے کہ یورپیوں کو مستقبل کے معاہدے میں شامل ہونے کی ضرورت ہو گی، جو روسی پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم اسے ایک طرح کی مفاہمت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مذاکرات میں یورپی یونین مذاکرات کے کر رہے ہیں کہ امریکہ یوکرین کے انہوں نے کے ساتھ کرنے کی رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی دوسری نشست روم میں ہوگی.ایرانی نائب وزیرخارجہ کی تصدیق
تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے تصدیق کی ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کی دوسری نشست ہفتے کے روز اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہوگی ایرانی ٹی وی سے گفتگو میں غریب آبادی نے کہا کہ ملاقات کے مقام سے قطع نظر، عمانی وزیر خارجہ مذاکرات کے سہولت کار اور ثالث ہیں.(جاری ہے)
خیال رہے کہ اس حوالے سے پہلی نشست گذشتہ ہفتے مسقط میں ہوئی تھی جہاں ایرانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی قیادت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف نے کی تھی پہلی میٹنگ کے بعد وائٹ ہاﺅس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ بات چیت مثبت اور تعمیری رہی. ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے لیے ہونے والی دوسری ملاقات کے مقام کے بارے میں مختلف بیانات اور رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے غریب آبادی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے ایرانی وزیر کا کہنا تھا کہ اس نشست میں آئندہ کی بات چیت کے لیے فریم ورک اور ایجنڈے کے تعین پر توجہ دی جائے گی. ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے اور ایران پر عائد پابندیوں کے معاملے پر بات کرنے جا رہے ہیں تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ان پبندیوں کو ہٹانے کے لیے کونسے اقدامات اٹھانے ضروری ہیں. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سٹیو وٹکوف کے گذشتہ روز کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے غریب آبادی کا کہنا تھا کہ ایران جوہری افزودگی کے معاملے کو مذاکرات میں سودے بازی کے طور پر استعمال نہیں کرے گا بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو ان مذاکرات میں شامل کرنے کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر آئی اے ای اے کو مذاکرات میں شامل کرنا بہت جلد بازی ہو گی ان کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت آگے بڑھتی ہے تو ایجنسی کو لازمی طور پر مدعو کیا جائے گا. واضح رہے کہ کئی سال بعد اس بات چیت کا مقصد ایران کے متنازع جوہری منصوبے پر نئے معاہدے پر اتفاق کرنا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے بیچ سابقہ معاہدے کو 2018 میں ختم کر دیا تھا اور اس پر اقتصادی پابندیاں بحال کر دی تھیں ٹرمپ نے بات چیت میں ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی بھی ہے.