طالبان اب روس کے لیے دہشت گرد کیوں نہیں رہے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اپریل 2025ء) روسی فیڈریشن کی سپریم کورٹ نے 17 اپریل کو ایک غیر عوامی اجلاس میں طالبان پر روس میں عائد پابندی کو ''عارضی طور پر‘‘ معطل کر دیا۔ اس کے لیے درخواست پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ یہ درخواست صدر ولادیمیر پوٹن کے ایک سال قبل جاری کردہ ایک صدارتی فرمان پر مبنی ہے، جس میں تحریک طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی اجازت دی گئی تھی۔
سن 2021 میں طالبان نے بین الاقوامی اتحادی افواج کے انخلا کے بعد کابل میں اقتدار دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔گزشتہ روز سے پہلے تک قانون تو یہ تھا کہ طالبان کے کسی بھی رکن کو روس میں داخلے پر گرفتار کیا جانا چاہیے اور اسے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزام میں 20 سال تک قید کی سزا ہو بھی ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)
تاہم، عملی طور پر سن 2016 کے بعد سے کسی بھی طالبان رکن کو روس میں داخلے پر گرفتار نہیں کیا گیا۔
کیوں کہ اس وقت کریملن نے طالبان کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات شروع کر دیے تھے۔ اس کے بعد طالبان کے نمائندوں نے بارہا ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کا دورہ کیا، جہاں وہ عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر بھی نظر آئے۔
دوسری جانب روسی میڈیا اس عرصے کے دوران بھی طالبان کو ''روس میں کالعدم دہشت گرد تنظیم‘‘ کہتا رہا لیکن سن 2024 میں یہ صورتحال بدل گئی۔
گزشتہ برس صدر پوٹن نے طالبان کو ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی‘‘ قرار دینا شروع کر دیا۔ طالبان اور چیچن جنگجوؤں کی حمایتدوسری چیچن جنگ (1999-2009) کے دوران طالبان نے چیچنیا میں اسلان مسخادوف حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے اور روس کی اس جمہوریہ کی آزادی کے اعلان کو تسلیم کیا۔ طالبان نے چیچن جنگجوؤں کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ اسلحے کے ذریعے بھی ماسکو کے خلاف ان حمایت کی۔
11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، نیٹو کی قیادت میں بین الاقوامی فوجی اتحاد آئی سیف ( آئی ایس اے ایف) نے نئی افغان حکومت کی حمایت سے طالبان کے خلاف جنگ لڑی، جو اس وقت ملک کے بیشتر حصوں پر قابض تھے۔
طالبان کو دراصل ماسکو سے مدد کی توقع تھی۔ اس وقت کے روسی صدارتی انتظامیہ کے سربراہ سرگئی ایوانوف نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سن 2001 میں طالبان کے روحانی رہنما ملا عمر نے روس کو تجویز دی تھی کہ وہ مل کر ''امریکی جارحیت کا مقابلہ‘‘ کریں۔
ان کے بقول، کریملن نے انگریزی میں ''ف ۔۔۔ آف‘‘ کہہ کر جواب دیا۔ اس کے بعد سن 2003 میں روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا۔
تاہم سن 2015 میں کریملن نے طالبان کے ساتھ ''رابطوں کے چینلز‘‘ قائم کرنے شروع کیے۔ سن 2024 میں پوٹن نے بالآخر وہ فرمان جاری کیا، جس نے طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا راستہ کھولا۔
اس عمل سے مستقبل میں ماسکو کو شام کی عبوری حکومت کو کنٹرول کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے ہٹانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ قانونی طور پر کیا بدلا ہے؟سپریم کورٹ کا فیصلہ بظاہر افغانستان کے ساتھ براہ راست جامع معاہدوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ آزاد انسانی حقوق کے گروپ ''پیروی اوٹڈیل‘‘ کے یوگینی سمرنوف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا کہ روسی فوجداری قانون دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے مختلف قید کی سزائیں مقرر کرتا ہے۔
اس کے باوجود سن 2024 میں روس نے طالبان کے ساتھ تیل کی مصنوعات، گندم اور آٹے کی فراہمی کے معاہدے کیے۔ اس روسی وکیل کے مطابق یہ معاہدے ممکنہ طور پر طالبان کے نمائندوں کی براہ راست شمولیت کے بغیر کاروباری اداروں کے ذریعے طے کیے گئے۔
سمرنوف نے زور دیا کہ روسی قانون میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس کے ذریعے دہشت گرد تنظیم کی درجہ بندی کو واپس لیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ''عارضی طور پر فہرست سے ہٹانے کا مطلب ہے کہ تنظیم عملی طور پر فہرست سے خارج ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد طالبان کے ساتھ تعاون کے کوئی قانونی نتائج نہیں ہوں گے۔ ‘‘ روس کی طرف سے سیاسی استثنیٰڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مشرقی امور کے ماہر ارسلان سلیمانوف نے بتایا کہ اب تک کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔
ان کے مطابق یہ تحریک بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، طالبان نے قزاقستان اور کرغیزستان کو بھی اپنی ''قومی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست‘‘ سے ان کو نکالنے پر آمادہ کیا۔سلیمانوف کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ابھی تک انہیں بالواسطہ ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، چین نے طالبان کی طرف سے نامزد سفیر کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جبکہ روس نے صرف عارضی چارج ڈی افیئر کو قبول کیا ہے۔
‘‘سلیمانوف کے خیال میں بین الاقوامی برادری کا طالبان تحریک کے حوالے سے شکوک و شبہات کا تعلق افغانستان میں اُن سخت قوانین اور پابندیوں کی واپسی سے ہے، جو سن 1996 سے 2001 تک طالبان کی سابقہ حکومت کے دوران نافذ تھے۔ ان سخت قوانین سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے لیے، انتہائی خراب ہو گئی ہے۔
مغرب کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں ماسکو نے طالبان کے اعتدال پسند نمائندوں سے رابطے شروع کیے ہیں، کیونکہ روس خود کو خطے میں ایک اہم کردار کے طور پر دیکھتا ہے۔ سلیمانوف کے مطابق اس پیش رفت کا تعلق طالبان کو روس کے دوروں کے لیے دیے گئے سیاسی استثنیٰ سے ہے۔
کریملن نے سن 2021 میں یہ دکھانا چاہا کہ امریکی خارجہ پالیسی ناکام ہوئی ہے۔
اس ماہر کے مطابق ''روسی پروپیگنڈا نے طالبان کی تائید کی، جو روس میں مغرب مخالف مسلسل بیانات کے تناظر میں آج تک جاری ہے۔‘‘ کیا اب روس میں طالبان کا اثرو رسوخ بڑھے گا؟سلیمانوف کو امید نہیں کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے طالبان کا روس میں اثر و رسوخ بڑھے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگرچہ روس میں زیادہ تر مسلمان، طالبان کی طرح سنی ہیں لیکن خطوں کے درمیان نظریاتی اختلافات نمایاں ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، ''طالبان ان کے لیے اجنبی اور ناقابل فہم ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر سن 2021 میں روس کی مسلم روحانی اسمبلی کے مفتی البیر کرگانوف نے طالبان کے قریب آنے پر ''تشویش‘‘ کا اظہار کیا تھا۔ ان کے خیال میں وسطی ایشیا کے وہ لوگ، جو طالبان سے تعلق رکھتے ہیں، روس کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ''صورتحال کو غیر مستحکم‘‘ کر سکتے ہیں۔
سلیمانوف نے مزید کہا کہ روسی تاجروں کو افغانستان میں سرمایہ کاری میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں، کیونکہ یہ خطہ اب بھی خطرناک اور غیر مستحکم ہے۔ انہوں نے یاد دلایا، ''سن 2022 میں ماسکو اور کابل کے درمیان ایندھن اور گندم کی فراہمی کے معاہدے کو بھی مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ایران، چین اور پاکستان بدستور افغانستان کے اہم تجارتی شراکت دار ہیں۔
الیکسی اسٹریلنیکوف کا یہ آرٹیکل روسی زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی نے طالبان کے میں طالبان طالبان کی طالبان نے طالبان کو کے طور پر انہوں نے کے مطابق فہرست سے کی فہرست کیا گیا کے بعد کے لیے
پڑھیں:
طالبان نے 5 لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے، برطانوی میڈیا کا انکشاف
برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان نے امریکا کی جانب سے چھوڑے گئے تقریباً 5 لاکھ فوجی ہتھیاروں کو دہشت گرد تنظیموں کو بیچ دیا یا اسمگل کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ ہتھیار طالبان کے 2021 میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے۔ طالبان نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ کم از کم نصف فوجی سامان کا حساب دینے سے قاصر ہیں۔
یو این کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20 فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا۔
قندھار کے مقامی صحافی کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال تک امریکی اسلحہ کھلی مارکیٹ میں فروخت ہوتا رہا، جبکہ اب یہ تجارت خفیہ طریقے سے جاری ہے۔
طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تمام ہتھیار محفوظ ہیں اور اسمگلنگ یا فروخت کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
رپورٹ میں امریکی ادارے سیگار کا حوالہ بھی دیا گیا، جس نے اسلحے کی کم تعداد کی اطلاع دی ہے، جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ 85 ارب ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار افغانستان میں چھوڑ دیے گئے تھے۔