جنوبی وزیرستان، ضلعی ہیڈکوارٹرز کو ٹانک سے لدھا منتقل
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
جنوبی وزیرستان (اپر) کے عوام کے لیے تاریخی قدم ، عوام کی سہولت کے لیے ضلعی ہیڈکوارٹرز کو ٹانک سے لدھا منتقل کر دیا گیا۔
اس سے قبل ضلعی دفاتر کی ٹانک میں موجودگی کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا تھا اور کسی بھی سرکاری کام کے لیے طویل سفر کرنا پڑتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:جنوبی وزیرستان: دوتانی قبائل کا فتنتہ الخوارج کے خلاف تاریخی اعلان، دہشتگردوں کے لیے زمین تنگ
ضلعی ہیڈکوارٹرز کی منتقلی کے بعد اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جس میں کور کمانڈر پشاور، لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری اور چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کا مقصد لدھا کے مقام پر نئے ضلعی ہیڈکوارٹرز سے عوامی خدمات کی فراہمی کے انتظامات کا جائزہ لینا تھا۔
تمام محکمے لدھا سے مؤثر انداز میں کام کریں گے اور عوام کو فوری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
مقامی عمائدین نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اس پیشرفت کو وزیرستان کے لیے ترقی، استحکام اور ایک روشن مستقبل کی امید قرار دیا۔
ضلعی دفاتر کی لدھا منتقلی پر عوامی حلقوں نے اظہار تشکر کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز اور حکومت خیبرپختونخوا کی کاوشوں کو سراہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹانک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان لدھا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹانک شمالی وزیرستان لدھا ضلعی ہیڈکوارٹرز کے لیے
پڑھیں:
جنوبی سوڈان میں سیاسی تنازعہ خانہ جنگی میں بدلنے کا خطرہ، نکولس ہیسم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 اپریل 2025ء) جنوبی سوڈان میں ایک اور جنگ شروع ہونے سے ملک میں سیاسی اور سلامتی کے حالات بگڑ رہے ہیں جس سے پورے خطے کے غیرمستحکم ہونے کا خدشہ ہے۔
جنوبی سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نکولس ہیسم نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ جنوبی سوڈان کا سیاسی تنازع خانہ جنگی میں تبدیل ہو رہا ہے اور امن کے حوالے سے اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو خطرہ ہے۔
امن معاہدے کے دو بڑے فریقین میں حالیہ عسکری تنازع نے ملک بھر میں کشیدگی کو ہوا دی ہے جس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ Tweet URLانہوں نے بتایا کہ گزشتہ مہینے ریاست بالائی نیل میں فریقین کے مابین لڑائی میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان ہوا جہاں ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی کارکنوں کا اندازہ ہے کہ اب تک اس علاقے سے 80 ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔انہوں نے ریاست میں بڑے پیمانے پر عسکری سرگرمیوں کے بارے میں بتایا اور خبردار کیا کہ بچوں کو بھی جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کی درخواست پر ملک میں یوگنڈا کی فوج بھی تعینات کی جا رہی ہے جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔
خصوصی نمائندے کا کہنا تھا کہ نائب صدر اول رائیک ماچھر کی گرفتاری اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ملک کے بڑے سیاسی فریقین میں اعتماد کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
امن مشن کے لیے مشکلاتنکولس ہیسم نے کہا کہ موجودہ صورتحال 2013 اور 2016 کے تنازعات کی یاد دلاتی ہے جن میں چار لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے درخواست کی کہ وہ بات چیت کے ذریعے فریقین میں تناؤ اور کشیدگی کا خاتمہ کرانے میں مدد دے۔
متحارب فریقین کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی اور امن معاہدے کا احترام کریں، گرفتار عسکری و غیرعسکری شخصیات کو رہا کیا جائے اور عوامی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے تمام اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اقوام متحدہ کے امن مشن کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عسکری کارروائیوں کے باعث مشن کو اپنے کام کی انجام دہی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
بدترین انسانی بحران کا خدشہامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی ڈائریکٹر ایڈیم وسورنو نے کونسل کو بتایا کہ انہوں نے ملک میں بگڑتے انسانی حالات کے بارے میں آٹھ مہینے قبل خبردار کیا تھا لیکن اس کے بعد یہ بگاڑ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اسے ڈراؤنا خواب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں سیاسی بحران پر قابو نہ پایا گیا تو بدترین حالات کا خدشہ بہت جلد حقیقت کا روپ دھار لے گا۔
ایڈیم وسورنو کا کہنا تھا کہ رواں سال ملک میں 93 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور ان میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ 77 لاکھ لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں اور پانچ سال سے کم عمر کے 650,000 بچوں کو شدید غذائی قلت کا خدشہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال اب تک امداد کی رسائی میں رکاوٹ آنے کے 100 سے زیادہ واقعات پیش آ چکے ہیں جن سے عدم تحفظ، لوٹ مار اور امدادی امور میں افسرشاہی کی عائد کردہ رکاوٹوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
سوڈان کی خانہ جنگی کے اثراتانہوں نے بتایا کہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی بھی جنوبی سوڈان پر منفی طور سے اثرانداز ہو رہی ہے۔ اس تنازع کے باعث 11 لاکھ پناہ گزین جنوبی سوڈان میں واپس آئے ہیں جبکہ سوڈان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی بڑی تعداد کے باعث ملک میں خدمات، خوراک کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔
پناہ گزین خواتین اور لڑکیوں کو جنسی تشدد اور تولیدی صحت سے متعلق پیچیدگیوں کی صورت میں سنگین خطرات لاحق ہیں۔
ایڈیم وسورنو نے بتایا کہ جنوبی سوڈان کے متعدد حصوں میں ہیضے کی وبا نے اب تک کم از کم 40 ہزار لوگوں کو متاثر کیا ہے جن میں 900 کی موت واقع ہو گئی ہے۔ رواں سال ملک میں 54 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی فراہمی اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے 1.7 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔