ٹیکن چیمپئین ارسلان ایش ویزہ مسائل کے باعث اہم ٹورنامنٹس سے باہر
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
ای اسپورٹس ٹیکن مقابلوں میں پاکستان چیمپئین بنوانے والے ارسلان ایش کو جاپان اور ریاض مقابلوں کیلئے ویزہ نہیں مل سکا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 5 مرتبہ چیمپئین اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے ٹیکن کھلاڑی ارسلان ایش ویزہ مسائل کے سبب جاپان 2025 اور ریاض کلیش ٹورنامنٹس میں شرکت سے محروم ہوگئے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر ای اسپورٹس چیمپئین نے لکھا کہ میں ہر ممکن کوشش کرچکا لیکن ویزہ مسائل کے سبب اب ایونٹ میں شریک سے محروم ہوں، پاسپورٹ کی پابندیوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔
قبل ازیں ٹیکن مقابلوں میں دنیا بھر میں پاکستان کی پہنچان کروانے والے ارسلان ایش نے ٹورنامنٹ میں جیت کے بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ کرکٹ ہماری قومی جنون ہے لیکن میں ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھتا ہوں جہاں دیگر کھیلوں بالخصوص ای اسپورٹس کو بھی
یکساں سپورٹ ملے، تاہم ٹورنامنٹس جیتنے کے باوجود ہمیں کوئی سپورٹ نہیں دی جاتی۔
ای اسپورٹس ورلڈکپ 2025:
7 جولائی سے 4 اگست تک سعودی عرب میں منعقد ہوگا، جس میں 25 گیمز ہوں گے اور 2 ہزار سے زائد کھلاڑی جبکہ 200 سے زائد کلبز بھی شرکت کریں گے۔
واضح رہے کہ رواں برس ای اسپورٹس ورلڈکپ مقابلے کی انعامی رقم 54.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ارسلان ایش
پڑھیں:
پاک امریکا تعلقات کا نیا موڑ
موجودہ حالات اور سیاسی تناظر میں پاکستان امریکا تعلقات میں کافی سنگین مسائل ہیں۔اصل مسئلہ دونوں اطراف کی سیاسی ترجیحات میں فرق اور اعتماد سازی کا فقدان ہے۔ایک بار سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت ساس اور بہو کے رشتے کی طرح ہے جس میں بہتری اور بگاڑ دونوں پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔
امریکا میں نئے انتخابات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی قیادت کے منتخب ہونے کے بعد عالمی اور علاقائی سیاست سمیت پاکستان اور امریکا تعلقات میں بہت سی نئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی اور امریکی کانگریس کا ایک تین رکنی وفد پاکستان کے دورے پر آیا ۔اس وفد میں امریکی کانگریس کے نمایاں اراکین شامل ہیں جن کی قیادت کانگریس مین جیک برگمین کر رہے ہیں جب کہ دیگر ارکان میں ٹام سوزی اور جو نتھن جیکسن شامل ہیں۔ٹام سوزی اور جیک برگمین پاکستان کاکس کے ممبران کی حیثیت سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
اس دورے کا مقصد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنا اور مختلف صوبوں میں تعاون کے نئے امکانات کو تلاش کرنا ہے۔یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امریکی کانگریس میں یہ کاکس گروپ ایک غیر رسمی گروپ ہے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہوتے ہیں۔اسی ماہ میں اب تک دو امریکی وفوداسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں۔پہلا دورہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور کے سینیٹرابلکارمائر کا تھا جس میں انھوں نے منرلزسرمایہ کاری فورم کا دورہ سمیت عسکری قیادت سے ملاقات کی۔
امریکا کے اس حالیہ تین رکنی وفد نے اپنے دورے میں پاکستان کی سیاسی اور سول قیادت سمیت پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی۔ان ملاقاتوں میں علاقائی سلامتی کی صورتحال،دفاعی تعاون کو مزید وسعت دینے، اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دینے، سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے،تجارتی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے جیسے امور سمیت دہشت گردی سے جڑے مسائل بھی سرفہرست تھے۔امریکی کانگریس کے ان اراکین کا دورہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بہت سے لوگوں کا خیال ہے امریکا کی موجودہ سیاسی ترجیحات میں پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے اور امریکا کی بڑی ترجیح بھارت ہے۔اسی طرح امریکا کو پاک چین تعلقات میں بڑھتے ہوئے نئے امکانات پر بھی تحفظات ہیں۔
اس وقت امریکا افغانستان کے حوالے سے براہ راست پاکستان پر انحصار کرنے کی بجائے خود طالبان سے رابطوں میں ہے۔پاکستان کا ایک بڑا چیلنج موجودہ حالات میں امریکا وچین کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات ہیں۔پاکستان کے جہاں امریکا کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں وہیں اس کا انحصار چین پر بھی ہے۔اسی طرح یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کو علاقائی سطح پر بھارت و افغانستان کے تناظر میں کافی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن میں سیکیورٹی اور دہشت گردی جیسے مسائل بھی سرفہرست ہیں۔
پاکستان امریکا سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ خطے کی سیاست میں پاکستان کے مفادات کو اہمیت دے اور خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں موجود بد اعتمادی کو کم کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔مگر ان معاملات میں امریکا کسی بڑے کردار کے لیے تیار نہیں۔ لیکن جس انداز میں امریکا بھارت پر انحصار کر رہا ہے یا اس کی توجہ کا مرکز بھارتی ریاست ہے وہ خود پاکستان کے لیے کافی تشویش کا پہلو ہے۔کیونکہ اگر پاکستان کو نظر انداز کر کے یا پاکستانی مفادات کو پشت ڈال کر امریکا بھارت کی جانب آگے بڑھتا ہے تو اس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت ڈیڈ لاک اور بات چیت کے دروازے بند ہیں امریکا کابھارت کی طرف جھکاؤ کسی بھی طور پر پاکستان کے مفاد میںنہیں ہوسکتا۔
اس لیے امریکا پر لازم ہے وہ اس خطہ کی سیاست میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کوبھی یقینی بنائے ۔اسی طرح امریکا کو افغانستان میں چھوڑے گئے اربوں ڈالر کے اسلحے کے دہشت گردی میں استعمال کو روکنے کے لیے بڑی سطح کا کردار ادا کرنا ہوگا۔کیونکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے اور اس میں جہاں ٹی ٹی پی کی کالعدم تنظیم ملوث ہے وہیں ان دہشت گردوں کو افغان طالبان حکومت اور پس پردہ بھارت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔لیکن اس اہم اور سنگین مسئلہ پر امریکا پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کررہا ہے۔
پاکستان کو جہاں امریکا سمیت چین اور خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر اور موثر بنانا ہے وہیں اسے جیو تعلقات ، جیو اسٹرٹیجک یا جیو معیشت سے جڑے معاملات پر بھی توجہ دینی ہے۔ اس لیے علاقائی ممالک بشمول بھارت اور افغانستان سے تعلقات کی بہتری اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب علاقائی ممالک سمیت بڑے عالمی ممالک کا بڑا ایجنڈا علاقائی سیاست کا استحکام اور معاشی ترقی ہوگا۔اسی طرح تمام بڑے اور چھوٹے ممالک اپنے سیاسی خسارہ کو کم کریں عملی طور پر ایک دوسرے پر اعتماد کرکے آگے بڑھنے کا کوئی مشترکہ فریم ورک یا حکمت عملی کو ترتیب نہیں دیں گے حالات میں بہتری کا عمل کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہوگا ۔
اسی طرح پاکستان کو امریکا سے تعلقات بہتر بنانے ہیں تو اس کی اپنی داخلی ترجیحات پر توجہ دینا بھی شامل ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے اور ملک کا سیاسی ،جمہوری،آئینی اور قانونی تشخص سمیت انسانی حقوق سے جڑے معاملات کی بہتر تصویر پیش نہیں کریں گے امریکا ان معاملات کو بنیاد بنا کر ہم پر یک طرفہ دباو ڈالنے کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔
ہمیں اپنے داخلی مسائل کا بھی درست ادراک ہونا چاہیے اور درست تجزیہ کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنی داخلی ترجیحات کا بھی تعین کرنا ہوگا۔نئے عالمی اور علاقائی بلاکس اور نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ایسے میں ہمارا داخلی سیاسی خسارہ اور حالات کا درست تجزیہ نہ کرنا یا اپنی ترجیحات کے تعین میں مختلف نوعیت کی داخلی سطح کی کمزوریاں ہمارا مقدمہ خراب کرسکتی ہیں۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ایسی عالمی یا علاقائی پالیسیوں سے گریز کیا جائے جو ہمیں داخلی سیاست میں اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بن سکیں۔