فیصل آباد: پیٹرول پمپ پر کھڑے ٹینکر میں لگنے والی آگ نے تین گاڑیوں کو لپیٹ میں لے لیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
ویب ڈیسک:فیصل آباد کے علاقے ستیانہ کے قریب ایک پیٹرول پمپ پر تیل سے بھرے آئل ٹینکر میں آگ لگنے سے 2 کوسٹر بسوں سمیت 3 گاڑیاں جل گئیں۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق پیٹرول پمپ پر آگ لگنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ٹینکر پیٹرول کی سپلائی کے لیے پہنچا جس دوران شارٹ سرکٹ سے گاڑی کی وائرنگ میں آگ بھڑک اٹھی۔
ریسکیو ذرائع کا بتانا ہے کہ ٹینکر میں بھڑکتی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے آئل ٹینکر اور قریب کھڑی 2 کوسٹر بسوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فلوریڈا کی یونیورسٹی میں فائرنگ،6 افراد ہلاک،پانچ زخمی
اطلاع ملنے پر آگ بجھانے والی گاڑیوں نے پہنچ کرآگ پر قابو پایا تاہم آگ لگنے کے نتیجے میں 3 گاڑیاں جل گئیں، آتشزدگی کے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
واٹر ٹینکر کی بہتات اور پانی کے مسائل
کراچی میں گرمی کے آغاز پر پانی کا بحران ایک بار پھر معمول کے مطابق شدت اختیار کر گیا ہے جس کی وجہ مرکزی لائن کے مرمتی کام میں تاخیر کو قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں شہر کو دو دنوں میں چالیس کروڑ گیلن پانی فراہمی نہیں کیا جاسکا اور شہر کا تقریباً 50 فی صد حصہ پانی سے محروم رہا۔ کراچی میں پانی فراہم کرنے والے سرکاری ادارے واٹر بورڈ کو جس میں سیوریج بھی شامل ہے مگر کمائی واٹربورڈ میں ہے جس کو سندھ حکومت نے کراچی واٹر کارپوریشن کا درجہ دیا تھا اور افسران کے تقرر و تبادلوں میں بھی من پسند تبدیلیاں اپنوں کو نوازنے کے لیے کی گئی تھیں جس کا شہریوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر واٹر مافیا میں کمائی کے نئے دروازے کھل گئے شہری پانی سے محروم ہوتے گئے اور شہر میں پانی کی قلت کا بحران شدید سے شدید تر ہوتے ہوئے اب انتہا پر پہنچ رہا ہے۔کراچی میں پانی کی لائنوں میں رساؤ اور پانی کی لائنیں ٹوٹنا تو معمول تھا ہی مگر اب پانی کی مرکزی لائن بھی ٹوٹنا شروع ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں شہر میں پانی کا بحران بدترین شکل اختیار کرگیا ہے اور تقریباً نصف شہر پینے کے پانی سے محروم رہا اور واٹر مافیا نے موقع سے فائدہ اٹھایا شہریوں کو منہ مانگی رقم دے کر خوشامدیں کرکے گھنٹوں انتظارکے بعد مہنگا پانی خریدنا پڑا۔
جب کراچی میں پانی کا انتظام کراچی واٹر بورڈ کے پاس تھا اس وقت کراچی میں تقریباً پانچ سو واٹر ٹینکر تھے مگر اب واٹر کارپوریشن بنائے جانے کے بعد شہر میں واٹر ٹینکروں کی تعداد تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ہو چکی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے اور ٹرک واٹر ٹینکروں میں تبدیل ہو رہے ہیں جس سے شہر کی سڑکوں پر واٹر ٹینکروں کی بہتات ہو چکی ہے جن کے کوئی اوقات مقرر نہیں اور وہ دن رات پانی منہ مانگے داموں فروخت کر رہے ہیں اور واٹر مافیا روزانہ کروڑوں روپے کا پانی فروخت کرکے مال کما رہی ہے مگر کراچی واٹر کارپوریشن کو صرف25 کروڑ روپے وصول ہو رہے ہیں اور واٹر ٹینکر شہریوں کو مہنگا پانی فروخت کرکے روزانہ کروڑوں روپے کراچی کی بااثر اور مضبوط طاقتور مافیا کو کما کر دے رہے ہیں اور ساڑھے پانچ ہزار ٹینکروں کی تیز رفتاری اور جلد بازی سے ان ٹینکروں کی وجہ سے شہریوں کا جانی نقصان بھی ہو رہا ہے جب کہ مالی نقصان وہ الگ برداشت کر رہے ہیں کیونکہ پانی کی قلت کے باعث انھیں مہنگا پانی خرید کر اپنی ضرورت پوری کرنا پڑ رہی ہے۔کراچی میں پانی کی قلت معمول بن چکی ہے جس میں حقیقی قلت سے زیادہ مصنوعی قلت ہے جو جان بوجھ کر پیدا کی جاتی ہے تاکہ واٹر ٹینکروں سے پانی خریدنے پر شہری مجبور رہیں۔ کراچی کی واٹر مافیا کا مقصد زیادہ سے زیادہ واٹر ٹینکر ہے۔ ٹینکروں کی تعداد پانچ سو سے ساڑھے 5 ہزار ہو جانے کے بعد ان واٹر ٹینکروں سے شہریوں کو کم قیمت پر پانی ملنا چاہیے تھا مگر ہزاروں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ہو جانے کے بعد بھی واٹر ٹینکروں میں مقابلے کا کوئی رجحان نہیں۔
مارکیٹوں میں مال زیادہ آ جائے تو قیمتوں کا مقابلہ ہونے سے نرخ کم ہو جاتے ہیں تاکہ مال زیادہ فروخت ہو مگر شہر میں فراہمی آب کے لیے کوئی مقابلہ نہیں بلکہ بعض دفعہ قلت آب بڑھ جانے پر تین کروڑ آبادی کے شہر کو ہزاروں ٹینکروں کے باوجود منہ مانگی قیمت پر پانی وقت پر نہیں ملتا اور سفارش یا گھنٹوں انتظار کے بعد ہی پانی میسر آتا ہے اور ان کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں پانی کی قلت مسلسل بڑھ ہی رہی ہے جو سردیوں کے مقابلے میں گرمیوں میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور یہ ضرورت پانی کی سرکاری لائنوں سے نہیں بلکہ واٹر ٹینکر پوری کرکے مال کما رہے ہیں اور کراچی کے شہری تقریباً دو عشروں سے پانی کی فراہمی کے سرکاری منصوبے K-4 کی تکمیل کے منتظر ہیں جس کی تکمیل کے صرف خواب ہی شہریوں کو سرکاری طور پر دکھائے جا رہے ہیں جو مکمل ہونے میں ہی نظر نہیں آ رہا جس سے منصوبے کی تعمیری لاگت بھی بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ K-3 سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کے دور میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا جس کو تقریباً سترہ سال گزر چکے ہیں۔اس طویل عرصے میں شہر کی آبادی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ پانی کی قلت مسلسل بڑھتی گئی جس سے شہر میں پانی کی مقدار بڑھنے کی بجائے کم ہوئی اور بڑھے تو صرف واٹر ٹینکر یا پانی کے سرکاری بل جو پانی نہ فراہم ہونے کے باوجود ہر سال بڑھتے ہی آ رہے ہیں۔ کراچی میں واٹر ٹینکروں کے ساتھ نجی طور پر پانی فروخت کرنے والوں کا کاروبار بھی عروج پر پہنچ چکا ہے اور یہ دونوں شہریوں کو پانی کی فراہمی کے نام پر اس لیے لوٹ رہے ہیں کہ وفاق اور سندھ حکومت کو کراچی میں پانی کا شدید بحران ہو یا قلت کوئی بھی احساس نہیں اسی لیے پانی کی فراہمی کا میگا منصوبہ K-4 مستقبل قریب میں بھی مکمل ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کے لیے حکومتیں مطلوبہ فنڈز نہیں دے رہیں اور کراچی سالوں سے پانی کے لیے ترس رہا ہے۔