پاکستان میں سالانہ ہزاروں مائیں اور لاکھوں بچے کیوں مر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
پاکستان میں روزانہ 27 مائیں اور ایک ماہ سے کم عمر کے 675 بچے صحت کی قابلِ انسداد پیچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں جس پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اموات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔
ان اموات کی روزانہ تعداد کا مطلب ہے کہ ہر سال 9800 سے زائد مائیں اور 246,300 نوزائیدہ بچے صحت کے قابل تدارک مسائل کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
زچہ و بچہ کی صحت میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیلاسی طرح پاکستان میں ہر سال 190,000 سے زائد مردہ بچوں کی پیدائش کا اندراج ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے بین الاقوامی اور قومی شراکت داروں کو پاکستان میں زچہ و بچہ کی صحت میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطّے کی خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔
حالیہ پیشرفتپاکستان نے گزشتہ برسوں کے دوران نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تازہ ترین دستیاب اعدادوشمار کے مطابق زچگی کی شرح اموات 2006 میں ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 276 اموات سے کم ہو کر 2024 میں 155 تک آ گئی ہے۔
نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بھی 2006 میں ہر ہزار زندہ پیدائشوں پر 52 اموات سے کم ہو کر 2024 میں 37.
پاکستان نے ڈبلیو ایچ اواور شراکت داروں کی مدد سے ملک بھر میں ماؤں اور نوزائیدہ بچوں میں تشنج (ایم این ٹی) کے خلاف بھی اہم پیشرفت کی ہے۔
پاکستان کی تقریبا 80 فیصد آبادی (19 کروڑ افراد) اب ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں نوزائیدہ بچوں میں تشنج کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا گیا ہے، اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر 1000 زندہ پیدائشوں پر اوسط ایک سے بھی کم تشنج کے مریض سا منے آتے ہیں۔
اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نے مارچ 2025، سندھ نے دسمبر 2024، اور پنجاب نے 2016 میں اس بیماری کا خاتمہ کیا۔
پائیدار ترقی کے اہدافڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس حوصلہ افزا پیش رفت کے باوجود 2030 کے لیے عالمی پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) حاصل کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ جس میں زچگی کی شرح اموات کو ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 70 اموات اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کو ہر ایک ہزار پیدائشوں پر 12 اموات تک کم کرنا شامل ہے۔
ان اہداف کے حصول کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ خواتین کی طویل المدتی صحت اور فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جائے، جس میں جنسی اور تولیدی صحت کی سہولیات تک مؤثر رسائی، معیاری قبل از پیدائش نگہداشت، پیدائش کے دوران جان بچانے والی سہولیات، اور نوزائیدہ بچوں کی فوری دیکھ بھال شامل ہیں مثلاً دودھ پلانے میں مدد، چوٹوں اور انفیکشن سے تحفظ، اور ضروری غذائی سہولیات کی فراہمی۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بالواسطہ وجوہات جیسے کہ خون کی کمی (انیمیا) کا مؤثر انداز میں حل نکالا جائے جو پاکستان میں تولیدی عمر کی 41.7 فیصد خواتین (15 سے 49 سال کی عمر) کو متاثر کرتی ہے.اور دائیوں پر مبنی نگہداشت کے طریقہ کار، ذہنی صحت، خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی، تعلیم، اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ خواتین کو اپنی اور اپنے خاندان کی صحت سے متعلق باخبر فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو۔
ہر ایک امریکی ڈالر جو زچہ و بچہ کی صحت میں پر خرچ کیا جاتا ہے، اس سے 9 سے 20 امریکی ڈالر تک کا منافع متوقع ہوتا ہے۔ زچہ و بچہ کی صحت پر خرچ کرنا انسانی سرمایہ پر سرمایہ کاری ہے جو اقتصادی ترقی اور خوشحال و صحت مند معاشروں کی جانب لے جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ڈبلیو ایچ او زچہ و بچہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ڈبلیو ایچ او زچہ و بچہ زندہ پیدائشوں پر زچہ و بچہ کی صحت نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ڈبلیو ایچ او پاکستان میں سرمایہ کاری بچوں کی کے لیے ہر ایک
پڑھیں:
پاکستانی بحری صنعت میں چینی سرمایہ کاری کی نئی راہیں
پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون کے تحت چین کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی نے پاکستانی بحری صنعت میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے یہ پیش رفت نہ صرف بندرگاہی ترقی کے نئے دور کا آغاز کرے گی بلکہ قومی معیشت اور ماحولیاتی بہتری کے لیے بھی مثبت اثرات مرتب کرے گی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کی معاونت سے چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اس اشتراک سے کراچی پورٹ پورٹ قاسم اور گوادر جیسے اہم بندرگاہی مراکز میں سرمایہ کاری کے متنوع مواقع پر غور کیا جا رہا ہے ان مراکز کو سرمایہ کاروں کے لیے انتہائی پرکشش تصور کیا جا رہا ہے جو نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیں گے بلکہ سیاحت اور بحری ترقی کو بھی نئی جہت عطا کریں گے چینی کمپنی کی جانب سے ایک انقلابی تجویز سامنے آئی ہے جس کے مطابق پورٹ قاسم پر سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹ قائم کیا جائے گا یہ منصوبہ پاکستان میں پانی کی قلت کے دیرینہ مسئلے کے حل کی جانب ایک عملی قدم ہوگا جس سے مقامی آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی اور صنعتی ضروریات بھی پوری کی جا سکیں گی یہ پلانٹ جہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا وہیں بحری صنعت کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا منصوبہ پاکستان کی ماحولیاتی پالیسیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کی کوششوں کے عین مطابق ہے اور اس سے ساحلی علاقوں میں معیشت کو سہارا ملے گا یہ سرمایہ کاری بحری سیاحت کے فروغ میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے جو پاکستان کے ساحلی علاقوں کے لیے ترقی کی نئی امید بنے گی چین اور پاکستان کی وزارت بحری امور نے مستقبل میں بھی مشترکہ ترقیاتی منصوبوں پر تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری مزید مضبوط ہو گی ایس آئی ایف سی کی کوششوں اور چینی کمپنی کی دلچسپی کے باعث پاکستانی بحری شعبہ عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایک ابھرتی ہوئی منزل بنتا جا رہا ہے جو مستقبل میں معاشی ترقی کے نئے امکانات پیدا کرے گا