اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی۔ وفاقی حکومت نے پہلے ہی تحریری جواب جمع کروا رکھا ہے، جس میں عدالت سے درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججز کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ان تینوں ججز کا وکیل کون ہے؟۔ اس پر اٹارنی جنرل منصور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف نے کوئی وکیل مقرر نہیں کیا۔ ان ججز کا موقف ہے کہ آئینی بنچ جو بھی فیصلہ کرے گا، وہ اسے قبول کریں گے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیا۔ تاہم درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے درخواست واپس لینے کی کوئی استدعا نہیں کی اور بغیر ہدایت درخواست کی واپسی کی تحریری استدعا دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا بیان ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ بار ایسوسی ایشن کی مجلس عاملہ نے قرارداد کے ذریعے درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا اور متاثرہ ججز نے علیحدہ سے اپنی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر بار ایسوسی ایشن خود درخواست واپس لے رہی ہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فی الحال اسلام آباد ہائی کورٹ کا مستقل چیف جسٹس مقرر نہیں کیا جا رہا اور جوڈیشل کمشن کے ایجنڈے میں یہ معاملہ شامل نہیں ہے۔ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے کم از کم 14 روز پہلے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔2  مئی کو ہونے والے جوڈیشل کمشن کے اجلاس میں پشاور اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت منگل سے کی جائے گی اور آئینی بنچ نے سماعت22  اپریل تک ملتوی کر دی۔ ادھر خیبر پی کے  حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے موقف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے عدالت کو بتایا کہ وہ متاثرہ ججز کی پٹیشن کی حمایت کرتے ہیں۔ جب جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا انہوں نے تحریری جواب جمع کرایا ہے، تو ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ابھی جواب جمع نہیں کرایا گیا۔ جس پر عدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کی اجازت دی۔ متاثرہ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دئیے کہ وفاقی حکومت نے ججز کی آمادگی کے بیانات یا صدر و چیف جسٹس کی منظوری کا کوئی دستاویزی ثبوت جمع نہیں کرایا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ سارا پراسیس متنازعہ ہے۔ تاہم اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ تمام عمل رضامندی سے ہوا ہے اور یہ معاملہ متنازعہ نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ اگر یہ معاملہ متنازعہ نہیں تو آمادگی کے بیانات عدالت میں پیش کیے جائیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ یہ بیانات جمع کرا دیئے جائیں گے۔ بنچ کے رکن جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ یہ معاملہ شروع کہاں سے ہوا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل  نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا  کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹر  ائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فیئر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں میں مکمل انصاف کے لیے افسر باقاعدہ حلف لیتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔ خواجہ حارث  نے کہا کہ محرم علی آوے لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا، یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جا سکتا ہے یا نہیں، اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28   تاریخ تک ملتوی کریں گے۔28  تاریخ تک بنچ دستیاب نہیں ہو گا۔28  تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا  آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟۔ خواجہ حارث  نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ مزید درکار ہوں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی  نے ریمارکس دئیے کہ اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں۔ جسٹس جمال مندوخیل  کہا کہ میں ابھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں، اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟۔  ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو دو سے تین دن کا وقت درکار ہے۔ جسٹس جمال   نے ریمارکس دئیے کہ یہ کیا مذاق ہے، بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟۔ جسٹس مسرت ہلالی  نے ریمارکس دئیے کہ  اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا میں دس منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی۔ عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں۔  جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کیس میں شیخ امتیاز کی ضمانت منظور، سازش کے الزامات پر سخت ریمارکس

سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کیس میں شیخ امتیاز کی ضمانت منظور، سازش کے الزامات پر سخت ریمارکس WhatsAppFacebookTwitter 0 17 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس) سپریم کورٹ نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیس میں شیخ امتیاز کی ضمانت کنفرم کردی جبکہ حافظ فرحت عباس کی ضمانت کی درخواست پر سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ “سازش کے الزام پر کسی فرد کو جیل میں نہ رکھا جائے” اور سوال اٹھایا کہ کیا شیخ امتیاز کے اکسانے کی کوئی ویڈیو موجود ہے۔ اس پر پنجاب حکومت کے وکیل ذوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ پیمرا سمیت تمام ریکارڈ موجود ہے اور ویڈیو کا فرانزک بھی کرایا گیا ہے۔ تاہم چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یہ ریکارڈ ویڈیو نہیں بلکہ آڈیو ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ “سازش، اعانت اور للکارے جیسے الزامات کے لیے ٹھوس شواہد ضروری ہیں۔”

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جس شخص نے 9 مئی کو آگ لگائی ہے، اس پر پراسیکیوشن کو مکمل سپورٹ حاصل ہے، تاہم ملزم کی ضمانت کو متاثر نہ کیا جائے۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ ملزم کا وائس میچنگ ٹیسٹ کروایا جائے، اور اگر وہ وائس میچنگ یا تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہ ہو تو اس کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ہدایت دی کہ چار ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے۔

واضح رہے کہ شیخ امتیاز کی ضمانت کنفرم کردی گئی ہے جبکہ حافظ فرحت عباس کی ضمانت کی درخواست پر سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • سانحہ 9 کے دوران پولیس افسر کے دانت توڑنے کا کیس، ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں فیصلے کی ہدایت
  • سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کی درخواست پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کردیا 
  • ججز سینیارٹی کیس، ایڈووکیٹ جنرلز کو مشاورت کے بعد جواب جمع کرانے کا حکم
  • سپریم کورٹ ججز سنیارٹی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہونے والے تینوں ججوں نے وکیل نہ کرنے کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کردیا
  • سویلین کا ملٹری ٹرائل: یہ کیا مذاق ہے، بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ جسٹس مندوخیل
  • ججز سینارٹی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا کوئی وکیل نہ کرنے کا فیصلہ 
  • ججز سینارٹی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا کوئی وکیل نہ کرنے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کیس میں شیخ امتیاز کی ضمانت منظور، سازش کے الزامات پر سخت ریمارکس
  • اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا ججز ٹرانسفر کیخلاف درخواست واپس لینے کا فیصلہ