پنجاب میں ان دنوں گندم کی نئی فصل کی انتہائی کم قیمت فروخت نے کسانوں کو پریشان اور مشتعل کر رکھا ہے، اپوزیشن نے بھی قیدی 804 کو چھوڑ کر گندم کاشتکاروں کے حق میں آواز بلند کر کے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی جدوجہد شروع کی ہوئی ہے ،مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ہر جانب گندم کی بات ہو رہی ہے کیونکہ پنجاب کی دیہی معیشت کے لیے یہ معاملہ زندگی موت کی حیثیت رکھتا ہے ۔

وزیر اعلی کی معاون خصوصی برائے کموڈٹیز سلمٰی بٹ نے تو اپنے انٹرویو میں پنجاب کے کسانوں کی تعداد کو ڈھائی تین ہزار بتلا کر اپنی علمی قابلیت ظاہر کی ہے لیکن وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت پنجاب میں37 لاکھ زرعی خاندان ایسے ہیں جو ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبے پر کاشت کر رہے ہیں ،یوں یہ پنجاب کے مجموعی زرعی خاندانوں کا تقریباً 85 فیصد بنتے ہیں اور ہر خاندان میں نفوس کی تعداد6 کے لگ بھگ ہو تو ان کی تعداد2 کروڑ22 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔

پنجاب کو پاکستان کی ’’فوڈ باسکٹ‘‘ اس لئے قرار دیاجاتا ہے کیونکہ یہ گندم کی مجموعی ملکی پیداوار کا76 فیصد اور چاول کا85 فیصد فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں’’گندم،آٹا، سستی روٹی‘‘ کو کئی دہائیوں سے بہت اہمیت حاصل رہی ہے ،ہمارے حکمران شاید عوام کو نادان سمجھنے کی خوش فہمی سے باہر آنے کو تیار نہیں اسی لئے پہلے سستا آٹا اور پھر سستی روٹی کے ذریعے عوام کو بجلی، پٹرولیم، گھی، دالوں، سبزیوں کی ہوشربا قیمتوں کو اوجھل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

زمینی حقائق نے ثابت کردیا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی سرکاری گندم کی خریدو فروخت اور فلورملز کے لیے سبسڈائزڈ گندم کوٹہ عوام کو فائدہ دینے کی بجائے سرکاری و نجی’’مافیاز‘‘ کے لیے کھربوں روپے کی کرپشن کا ذریعہ بنا رہا ہے، بھلا ہو ہمارے ریاستی ادارے اور آئی ایم ایف کا جنھوں نے دو سال قبل کرپشن کے اس میگا پراجیکٹ کا مستقل خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا ،نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے اس پر عملدرآمد کا آغاز کیا اور آج یہ پیش رفت ہو چکی ہے کہ وفاقی محکمہ پاسکو سمیت چاروں صوبائی محکمہ خوراک باضابطہ طور پر گندم کی سرکاری خریداری ترک کر چکے ہیں۔

 گندم سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے لیکن عملی طور پر یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک صوبائی حکومتیں نجی آٹا ،روٹی کی قیمت کے تعین سے باز نہیں آتیں ،پنجاب میں اس وقت کسانوں کو گندم کی بہتر قیمت نہ ملنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ صوبائی حکومت آج بھی یہ ارادہ رکھتی ہے کہ شہری آبادی کے لیے سادہ روٹی کی قیمت14 روپے سے بڑھنے نہیں دی جائے گی ، گزشتہ دنوں متعدد اجلاسوں میں بھی بیوروکریسی کو یہی ’’روڈ میپ‘‘ دیا گیا ہے کہ کسانوں کو عمدہ قیمت دلانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ گندم کی قیمت2800 تا3 ہزار روپے فی من کے درمیان رہے تاکہ روٹی کی قیمت14 روپے سے نہ بڑھے ،موجودہ حالات میں بھی اگر مقررہ فارمولا کے تحت تخمینہ بنایا جائے تو گندم کی قیمت3150 تا3200 روپے ہو تب بھی روٹی کی قیمت14 روپے رہ سکتی ہے اور اگر حکومت حقیقی معنوں میں گندم سیکٹر ڈی ریگولیٹ کر کے فری ٹریڈ ہونے دے تو کسان کو گندم کی قیمت3400 روپے فی من تک مل سکتی ہے جو کہ پنجاب کی دیہی معیشت کو پھر سے خوشحال اور مستحکم بنا دے گی اور روٹی کی قیمت میں بھی ایک یا ڈیڑھ روپے سے زیادہ کا اضافہ نہیں ہوگا۔

دوسری بڑی وجہ فلورملز اور نجی خریداروں کا یہ خوف ہے کہ اس وقت پنجاب کے پاس9 لاکھ ٹن، سندھ کے پاس 13 لاکھ40 ہزار ٹن جب کہ پاسکو کے پاس24 لاکھ ٹن کے لگ بھگ سرکاری گندم کے اسٹاکس موجود ہیں جو کہ انھوں نے آیندہ ریلیز سیزن میں ہر صورت فروخت کرنے ہیں کیونکہ لاکھوں ٹن گندم خراب ہونا شروع ہو چکی ہے۔ گزشتہ ریلیز سیزن میں پنجاب فوڈ نے 2800/2900 روپے قیمت پر نکاسی کی جب کہ وفاقی محکمہ پاسکو اور سندھ فوڈ نے ایک دانہ گندم بھی فروخت نہیں کی ۔

فلورمل مالکان اور نجی خریداروں کو ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر یہ خوف ہے کہ آیندہ چند مہینوں بعد اس50 لاکھ ٹن سرکاری گندم کی نکاسی کے لیے حکومتیں کیا قیمت فروخت مقرر کرتی ہیں ۔وفاق و پنجاب و سندھ حکومتیں نیک نیتی کے ساتھ یہ اعلان کردیں کہ ان کی سرکاری گندم کی قیمت فروخت آیندہ سیزن میں کیا ہوگی بالخصوص پنجاب حکومت14 روپے روٹی قیمت کی سیاسی ہٹ دھرمی ترک کردے تو گندم خریداروں کا اعتماد بحال ہوجائے جنھوں نے گزشتہ سال حکومت پنجاب کے فیصلوں کے نتیجے میں فی فلور مل 35 کروڑ تا85 کروڑ روپے تک بڑا خسارہ برداشت کیا ہے اور اب ان کی دوبارہ سے بڑا معاشی دھکا سہنے کی سکت نہیں ہے۔

پنجاب حکومت نے دو روز قبل گندم پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن کسان اور نجی گندم خریدار اس پیکیج پر اعتماد کرنے کو فی الوقت تیار دکھائی نہیں دے رہے، کسان تنظیموں نے اس پیکیج کو مسترد کردیا ہے ۔غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیکیج کی کچھ شقیں تو قابل عمل اور فائدہ مند ہو سکتی ہیں ، اگر اس پیکیج کا اعلان3 ہفتے قبل کر کے اس کی بھرپور تشہیر اور تشریح کی جاتی تو کسانوں کی بڑی تعداد اس میں شامل ہونے کو تیار ہوجاتی۔ گندم سپورٹ فنڈ کے تحت کسان کارڈ کے ذریعے15 ارب روپے کی فنانشل سپورٹ سے ہر گندم کاشتکار کو فائدہ نہیں پہنچے گا صرف ان کو ہی فائدہ ہوگا جو کسان کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔

الیکٹرانک ویئر ہاؤسنگ ریسیٹ(EWR )کے تحت کسانوں اور نجی خریداروں کو 4 ماہ کے مارک اپ فری ٹائم کے تحت گندم اسٹور کرنے کی پیشکش کی گئی ہے اور اس کے لیے5 ارب روپے مختص گئے ہیں، کسان اپنی گندم کی مالیت کا70 فیصد بطور قرض حاصل کر سکیں گے۔ چھوٹے کسان کے لیے یہ سہولت حاصل کرنا اس لئے مشکل ہے کیونکہ باردانہ خرید کر اس کی بھرائی کر کے اسے اپنے خرچے پر ’’ای ڈبلیو آر‘‘ گودام پر لیجانا آسان نہیں ہوگا ،چار ماہ کی مفت سہولت کے بعد اسے فی من گندم پر25 تا30 روپے تک مارک اپ دینا ہوگا ، دوسری جانب پنجاب حکومت سستی روٹی کی خاطر گندم قیمت کو ایک خاص حد سے بڑھنے دینا نہیں چاہتی تو پھر اس کسان کو اس سہولت کا کیا فائدہ ملے گا۔

حکومت نے فلورملز اور آڑھتیوں کو گندم خریداری کے لیے100 ارب روپے کے بینک قرضوں کی اسکیم بھی لانچ کی ہے جس کے تحت50 فیصد قرضہ کامارک اپ حکومت ادا کرے گی اور50 فیصد کا خریدار خود ادا کرنے کا پابند ہوگا اول تو یہ کہ کسانوں اور مارکیٹ میں اس شق کے حوالے سے تاثر پیدا ہوا ہے کہ اس سے بڑے اسٹاکسٹ کو فائدہ ہوگا بالخصوص ان لوگوں کو جو گندم کی ٹریڈنگ کرتے ہیں اس سے کسان کو براہ راست زیادہ فائدہ ممکن نہیں دوسرا یہ کہ حکومت نے اس اسکیم کے لیے صرف بینک آف پنجاب کا انتخاب کیا ہے جو نجی شعبہ کے لیے بڑا مشکل ہے ،تمام تر تحفظات اور اعتراضات کے باوجود اس شق کو کامیاب بنانا ہے تو دیگر کمرشل بینکوں کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ کو چاہیے تھا کہ وہ گندم پیکیج کا اعلان خود کسی کھیت میں جا کر یا کم ازکم پریس کانفرنس میں کرتیں تاکہ مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوتا، اب بھی وقت ہے کہ مناسب اعلانات کے ذریعے کسانوں اور نجی خریداروں کی اعتماد سازی کی جائے۔

وزیر اعظم میاںشہبازشریف وفاق کی سطح پر گندم کے حوالے سے فکر مند بھی ہیں اور بہتری کے اقدامات کے لیے مشاورت بھی کر رہے ہیں، ان کی ہدایت پر ان کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ نے گزشتہ دو دنوں میں کسان رہنماؤں سے بالمشافہ ملاقات کر کے گھنٹوں تک مشاورت کی ہے جب کہ گزشتہ روز وزیر اعظم نے گندم کے معاملے پر کسانوں اور اراکین اسمبلی سے ملاقات کی ہے۔ افواج پاکستان بھی معاملے کا جائزہ لے رہی ہیں،میجر جنرل شاہد نذیر بھی کسانوں سے رابطے میں ہیں جب کہ وفاقی وزیر رانا تنویر اور وفاقی سیکریٹری وسیم اجمل بھی بہتری کے راستے تلاش کر رہے ہیں جن میں گندم مصنوعات کی ایکسپورٹ کی آپشن بھی شامل ہے۔ بہتری اسی وقت آئے گی جب کسان اور نجی خریدار کا اعتماد بحال ہوگا اور پنجاب حکومت کے گندم پیکیج کو افسانہ کی بجائے کسان دوست حقیقت سمجھا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور نجی خریداروں کا اعتماد بحال اور نجی خریدار روٹی کی قیمت گندم کی قیمت سرکاری گندم پنجاب حکومت گندم پیکیج کسانوں اور اس پیکیج پنجاب کے ہے کہ ا کے لیے کے تحت

پڑھیں:

پنجاب اسمبلی: محکمہ ہیلتھ کے افسر سراپا احتجاج: ان سے بات کریں، سپیکر، متعدد بل پیش، اپوزیشن کا احتجاج

لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ47 منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں محکمہ لیبر اور انسانی وسائل کے حوالے سے سوالوں کے جوابات متعلقہ پارلیمانی سکرٹری نے دیئے۔ اجلاس میں رکن اسمبلی کرسٹوفر فیبلوس نے حافظ آباد میں زہریلی مٹھائی کھانے سے تین بچوں کی ہلاکت کا معاملہ اسمبلی میں اٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹری ورکر عرفان کو بلدیہ کی جانب سے مٹھائی دی گئی کہ آوارہ کتوں کو کھلا دے۔ سینیٹری ورکر کو کوئی آوارہ کتا نہیں ملا تو وہ مٹھائی کا ڈبہ ساتھ لے گیا۔ علاقے کے بچوں نے مٹھائی کھا لی جس سے تین بچے جاں بحق ہوگئے، دو کی حالت تشویشناک ہے جبکہ تین کی حالت تسلی بخش ہے۔ پولیس نے ورکر عرفان کو پکڑ لیا ہے جبکہ اس میں عرفان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے پارلیمانی وزیرمیاں مجتبیٰ شجاع الرحمان کو ایک گھنٹے میں تمام معاملے کی انکوائری کی ہدایت کر دی۔ گذشتہ روز اپوزیشن حسب معمول ایوان میںنعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہوئی۔ اپوزیشن اراکین نے بانی پی ٹی آئی کی تصاویر اور احتجاجی نعروں والے کتبے اٹھا رکھے تھے۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے ایوان میں کہا کہ پچھلے آٹھ روز سے محکمہ ہیلتھ کے افسران سراپا احتجاج ہیں، حکومت کو ان سے بات کرنی چاہیے، جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ چیف وہپ رانا ارشد کوشش کریں کہ انیس رکنی کابینہ کے علاوہ کوئی اور مل جائے تو ان سے بات کریں۔ کرسچئن کمیونٹی نے پنجاب اسمبلی میں گڈ فرائی ڈے اور ایسٹر کے دن چھٹی دینے کا مطالبہ کردیا۔ مطالبہ کرسچیئن کمیونٹی کے رہنما کرسٹوفر فیلبوس نے کیا۔ وزیر پارلیمانی امور میاں مجتبی شجاع الرحمن نے گزیٹڈ چھٹیوں کے ساتھ  اس معاملے کو جوڑ دیا اور کہا کہ گزیٹڈ چھٹیاں دیکھنے کے بعد ہی کچھ کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نہروں کے معاملے پر پنجاب اور سندھ کو مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ جس پر پیپلز پارٹی کی رکن نرگس فیض اعوان نے کہا کہ سندھ نے کہاں پنجاب کا حق مارا ہے، ہماری قیادت پر کیوں تنقید کی جارہی ہے۔ جس پر سپیکر نے کہا کہ امجد علی جاوید نے جو بات کی ہے وہ ٹھیک ہے، نہروں کے معاملے پر آپس میں مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ وقفہ سوالات کے بعد پارلیمانی سیکرٹری برائے پارلیمانی امور خالد رانجھا نے ترمیمی آرڈینینس پولیس آرڈر 2025 ایوان میں پیش کردیا گیا جسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اسی طرح مسودہ قانون ترمیم صوبائی موٹر گاڑیاں 2025ء، مسودہ قانون ترمیم صوبائی موٹر گاڑیاں 2025ء، مسودہ قانون ترمیم ڈرگز 2025ء، مسودہ قانون ترمیم صوبائی موٹر گاڑیاں 2025ء، مسودہ قانون ترمیم سٹامپ 2025ء، مسودہ قانون ترمیم صوبائی ملازمین کا سماجی تحفظ 2025ء بل بھی ایوان میں پیش کئے گئے۔ مذکورہ تمام بل پارلیمانی سیکرٹری برائے پارلیمانی امور خالد رانجھا نے ایوان میں پیش کئے جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیز کے سپرد کردیا گیا۔ صوبائی وزیر زراعت عاشق کرمانی نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسان کارڈ چھوٹے فارمر کو سپورٹ کرتا ہے، کسان کارڈ کے ذریعے باون ارب روپے کی لاگت سے چھوٹے کاشتکار نے بیج خریدا۔ اس کارڈ کے ذریعے کسان ڈیزل اور زرعی ادویات بھی خرید سکتا ہے، قاعدے قانون کے تحت حکومت گندم کی قیمت کا تعین نہیں کرتی۔ حکومتی ایم پی اے ملک وحید نے کہا محکمہ فوڈ سود کے نیچے دبتا جارہا تھا، محکمہ بھی چل نہیں پارہا تھا، حکومت کے پاس 89 لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود ہے، تیرہ لاکھ بہتر ہزار میٹرک ٹن گندم بیچی ہے، حکومت پنجاب گندم نہیں خریدے گی، محکمہ کا قرضہ تین سو پینتیس ارب سے کم ہوکر چودہ ارب روپے رہ گیا ہے، ہم کسان کو گندم سٹور کرنے کے لئے کسان کو ریلیف دینے جارہے ہیں۔  ملک وحید کی جانب سے وزیر اعلی پنجاب کی اسٹیٹمنٹ ہو بہو پڑھنے پر ایوان میں قہقے، ملک وحید کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے اس ملک میں قانون کی دھجیاں بکھیریں، نو مئی کا واقعہ انہوں نے کیا۔  ذوالفقار علی شاہ نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ سکیورٹی ہر ملک کی اولین ترجیح ہوتی ہے، سمجھ نہیں آرہی کہ ہنسیں یا روئیں۔گندم کو سٹور نہیں کر سکتے۔ سود سے جان چھڑائیں جو حرام ہے۔ اپوزیشن رکن وقاص مان نے ایوان میں گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ فری ٹریڈ پالیسی سے کسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ فائدہ مڈل مین اٹھائے گا ،حکومت کو چاہیے کوئی پرائس دے۔ حکومتی رکن احسن رضا خان نے کہا کہ بطور حکومتی رکن حکومت کی گندم پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایلیٹ کلاس صرف ایک پیزا تین ہزار کا کھاتی ہے، کسان سے بائیس سو روپے من گندم لینا کہاں کا انصاف ہے۔ حکومتی رکن احسن رضا خان کی جانب سے گندم پر حکومتی پالیسی سے اتفاق نہ کرنے پر اپوزیشن بنچوں سے ڈیسک بجا کر خراج تحسین پیش کیا۔ پنجاب اسمبلی اجلاس کا ایجنڈا مکمل ہونے پینل آف دی چیئرمین نے اجلاس کل دوپہر دو بجے تک ملتوی کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں گندم کی فی من قیمت 4 ہزار روپے مقرر کرنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • وزیراعظم کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کے کسان پیکج کی تعریف، 15 ارب روپے کے براہ راست ریلیف کو خوش آئند قرار دے دیا
  • پیٹرول سے بچت نہ ہوتو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بنیں گی؟ شاہد خاقان عباسی
  • روٹی کی قیمت میں کمی کا بوجھ کسان برداشت نہیں کر سکتا، شاہد خاقان عباسی
  • پنجاب اسمبلی: محکمہ ہیلتھ کے افسر سراپا احتجاج: ان سے بات کریں، سپیکر، متعدد بل پیش، اپوزیشن کا احتجاج
  • حکومت کا کسانوں کیلئے بڑے امدادی گندم پیکیج کا اعلان
  • حکومت پنجاب کا کسانوں کیلئے 15 ارب روپے کے امدادی گندم پیکیج کا اعلان
  • وزیراعلیٰ مریم نواز نے گندم کے کاشتکاروں کیلئے پیکیج کا اعلان کر دیا۔
  • وزیراعلیٰ پنجاب کا کسان دوست اقدام، گندم کاشتکاروں کیلئے 15 ارب روپے کا پیکج منظور