نجی حج آپریٹرز کو سرکاری اسکیم کیساتھ ہی درخواستیں لینے نہیں دی گئیں، صدر نجی حج ٹورز آپریٹرز
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
فوٹو: فائل
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں نجی حج ٹورز آپریٹرز کے صدر ثنااللّٰہ نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نجی حج آپریٹرز کو سرکاری اسکیم کے ساتھ ہی درخواستیں لینے نہیں دی گئیں۔
قائمہ کمیٹی اجلاس کے دوران بریفنگ دیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ کابینہ نے حج پالیسی منظوری میں ڈھائی ماہ لگا دیے۔
انہوں نے کہا کہ نجی حج آپریٹرز کو سرکاری اسکیم کے ساتھ ہی درخواستیں لینے نہیں دی گئیں، ہمیں بروقت درخواستیں نہ لینے دی گئیں تو ہم انتظامات نہیں کرسکے۔
مزید پڑھیں: پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کی لاپروائی، ہزاروں عازمین حج سے محروم ہوگئے
ثنااللّٰہ نے مطالبہ کیا کہ اعلیٰ سطح کمیٹی بنا کر سعودی عرب بھیجی جائے اور مسئلہ حل کیا جائے، وزیر اعظم کے سامنے مسئلہ اٹھا کر مسئلہ حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ غلطی ہماری ہے یا وزارت کی، اس پر جزا و سزا بعد میں کرلیں، مگر اس وقت حاجی بھیجے جائیں۔
صدر نجی حج آپریٹرز کا کہنا تھا کہ اب تک 95 ارب روپے سعودی عرب جاچکے ہیں۔ اس پر رانا محمود کا کہنا تھا کہ ان معاملات کی وجہ سے حامد کاظمی اور اس وقت کے سیکریٹری جیل جاچکے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ ہمیں جیل جانے سے بچائیں۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان میں حج کے اخراجات خطے کے دیگر ممالک سے کم ہیں، سردار محمد یوسفڈپٹی سیکریٹری حج کا کہنا تھا کہ ٹور آپریٹرز کو بڑے کلسٹرز بنانے کا کہا کہ جو انہوں نے لیٹ کیا۔ اس بار حکومتی پالیسی تھی کہ 30 لاکھ روپے سے اوپر حج کرنے والے کا ڈیٹا ایجنسیوں اور ایف بی آر کو شیئر کیا جائے گا۔
انکا کہنا تھا کہ حوالہ و ہنڈی کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے اور بلیک منی پکڑنے کےلیے ایسی پابندی لگائی گئی، نجی ٹور کمپنیز نے 902 کمپنیوں کو ہی کوٹہ جاری کرنے پر ایک ماہ ضد کیے رکھی، ٹور آپریٹرز عدالت جا کر حکم امتناع لے آئے۔
انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب رقم منتقل کرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں، اگر ٹور آپریٹرز بروقت رقم بھیجتے رہتے تو مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نجی حج آپریٹرز کا کہنا تھا کہ آپریٹرز کو کہا کہ
پڑھیں:
شاہد خاقان عباسی کا اپوزیشن کے اختلافات ختم کرنے میں ناکامی کا اعتراف، وجہ بھی بتا دی
اسلام آباد:عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور اپوزیشن جماعتوں کے اہم رہنما شاہد خاقان عباسی نے اپوزیشن کے درمیان پائی جانے والے اختلافات ختم کرنے میں ناکامی اعتراف کرتے ہوئے زور دیا کہ جمعیت علمائے اور اسلام اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق وزیر اعظم اور سربراہ عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں ویمن کنونشن سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اتفاق نہیں اس کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی، حالانکہ اختلاف رائے جمہوریت کی روح ہوتی ہے، اسی وجہ سے ملک میں انتشار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بھی آپس میں اتفاق نہیں پیدا کر سکیں، ہماری کوشش تھی کہ اختلافات دور کیے جائیں، ہم نے کبھی گرینڈ الائنس کی بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان اختلاف دور کرنے کی ضرورت ہے، جب پی ٹی آئی نے حکومت کی تو زیادہ حوصلہ افزا حالات نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کی بات سننی پڑے گی، کیا وجہ ہے کہ وہاں کا نوجوان مایوس ہے، ان کی بات نہیں سنیں گے تو حالات نہیں بدلیں گے، دہشت گردی کا مقابلہ کرنا سب کا فرض ہے کوئی شخص دہشت گردی قبول نہیں کر سکتا، پتا کریں بلوچستان کا نوجوان ملک سے مایوس ہوتا جا رہا ہے اور وہاں مستقبل اور روزگار کے حوالے سے احساس محرومی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آرمی آپریشن آخری طریقہ ہوتا ہے، اصل معاملے کی جڑ تک پہنچ کر احساس محرومی ختم کرنی ہے۔
اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن الائنس کے لیے تحفظات کو دور کرنے کی ضرورت ہے، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ایک جماعت اقتدار میں ہے، ان کے وزیر اعلیٰ جمعیت علمائے اسلام کے خلاف بات کر دیتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوشش ہے جو تحفظات ہیں ان کو دور کیا جائے تاکہ بڑے مقصد کے لیے آگے بڑھ سکیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کے دعوے وہ لوگ کر رہے ہیں جو معاملات کو سمجھ نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت اوپر نیچے ہونے کا ایک فارمولا بنا ہوا ہے، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومت مہنگا خرید کر سستا پیٹرول دیتی رہی، ملک کا وزیراعظم کہہ رہا ہے تیل کی قیمت اس لیے کم نہیں کر رہے کہ بجلی سستی کریں گے اور اب کہا بلوچستان میں سڑکیں بنائیں گے، یہ کونسی منصوبہ بندی ہے، اگر کل قیمت بڑھ گئی تو سڑکیں کیسے بنیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ لیوی ایک حد تک بڑھا سکتے ہیں، اس کے لیے اسمبلی سے اجازت لینا پڑے گی، کیا بلوچ عوام نے آپ سے سڑکیں مانگی ہیں، وہ اپنے وسائل کا حصہ چاہتے ہیں اور مسنگ پرسنز کا مسئلہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عوام کی منتخب حکومتیں نہیں ہیں، اس خام خیالی سے ملک نہیں چلا کرتے بلکہ مستقل پالیسی سے چلا کرتے ہیں، ملکی مسائل کے بارے میں ہم تجربہ رکھتے ہیں اتنی صلاحیت ہے کہ ان مسائل کو حل کر سکیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ وسائل کی تقسیم، بجلی، معیشت بہتر کرنے اور احساس محرومی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالات کانفرنسز سے بہتر نہیں ہوتے ہیں، آئین کہتا ہے منرلز صوبوں کے اختیار میں ہیں، وفاق ان پر قبضہ نہیں کر سکتا، ممکن نہیں وفاق اپنی پالیسی بنا کر معدنیات نکالنے کی کوشش کرے، یقینناً صوبوں کو اپنی صلاحیت میں اضافہ کرنا پڑے گا یہ کانفرنسز وفاق اور صوبوں کو مل کر کرنا پڑیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کام کریں حقائق عوام کے سامنے رکھیں، بتایا جاتا ہے ریکوڈک ملکی مسائل کا حل ہے، کینالز بننے چاہیئں اچھی بات ہے لیکن پانی کہاں سے آئے گا، ملک میں پانی ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے، ماضی میں بھی یہی خرابیاں پیدا ہوئیں اور ابھی سندھ میں بے چینی کی کیفیت ہے۔