Islam Times:
2025-04-19@06:59:35 GMT

ایران امریکہ مذاکرات اور مزاحمت کی طاقت

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

ایران امریکہ مذاکرات اور مزاحمت کی طاقت

اسلام ٹائمز: ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُسوقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔ ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ ولکرسن کی یہ بات درست ہے اور اسی وجہ سے ایران سے براہ راست جنگ کا آپشن صرف دھمکیوں کی حد تک ہے، ورنہ خطے میں تباہی آئے گی، جس کی حرارت یورپ تک محسوس کی جائے گی۔" تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا کی بڑی بڑی جنگوں کے فیصلے بھی آخرکار مذاکرات کی میز پر ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں باصلاحیت مذاکرات کار ہونا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے پچھلے کچھ عرصے میں مذاکرات اور سفارتکاری میں حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایک ہی وقت میں بہت سے محاذوں پر خود کو مصروف کرنا آپ کی طاقت اور توجہ کو تقسیم کر دیتا ہے۔ اس سے نتائج آپ کی مرضی کے مطابق نہیں آتے اور چیزیں آپ کے کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ نے بڑے طریقے سے عربوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ڈرایا اور انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ شہید آیت ابراہیم رئیسیؒ کی مذاکراتی پالیسی بہت زبردست رہی کہ انہوں نے خطے میں پڑوسیوں کے ساتھ اپنی سفارتکاری سے تعلقات کو بحال کر لیا۔

باہمی کشمکش سے نکل کر ایک ہی محاذ پر یکسوئی کے ساتھ مصروف کار ہوگئے۔آج سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان تہران پہنچ چکے ہیں اور ان کے اعلیٰ سطحی مذاکرات جاری ہیں۔ جب دشمن آپ کو تنہاء کرنا چاہتا ہے اور آپ کی انسانی جدوجہد کو فرقہ واریت کی نذر کرنا چاہتا ہے تو ایسے میں مسلسل بین الاقوامی رہنماوں کی آپ کے دارالحکومت میں آمد آپ کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اسی وقت ایران کے وزیر خارجہ ماسکو پہنچ چکے ہیں، جہاں روسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے۔ یہ عملی طور پر طاقت کا اظہار ہے اور اپنے اتحادیوں اور پڑوسیوں کو مشکوک بنانے کی بجائے انہیں اپنی طاقت بنانے کی حکمت عملی ہے۔

عمان میں مذاکرات کا ایک دور ہوچکا ہے اور دوسرے دور کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ مذاکراتی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔ ان مذاکرات میں عمان کے وزیر خارجہ ثالثی کا کردار ادا کیا۔ عمان میں عمانی ثالثی میں مذاکرات اسلامی جمہوریہ ایران کی پہلی کامیابی ہے کہ اپنی پالیسی کے مطابق عمل کیا گیا۔ یوں لگ رہا ہے امریکہ اور بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ بہت جلدی میں ہیں۔ وہ مذاکرات کو جلد از جلد  مکمل کرنا چاہتے ہیں، ایران نے بھی مذاکرات میں غیر ضروری تاخیر کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے مسائل کو بھول بھلیوں میں ڈالنے کی بجائے حل کرنے کی بات کی ہے۔

امریکہ جو بات سامنے کر رہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے تو اتفاق سے یہ وہی بات ہے، جس کا فیصلہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا دو ہزار تین کا فتویٰ کرچکا ہے کہ ایسے انسانیت سوز ہتھیار بنانا شرعی طور پر درست نہیں ہے۔ یہاں مغرب پسندوں کو امن کے عالمی انعامات دیئے جاتے ہیں، اگر انصاف پسندوں کی جیوری ہوتی تو اس فتویٰ پر آپ کو امن کا نوبل پرائز دیا جانا چاہیئے تھا۔ اس وقت اسرائیل، ایران امریکہ مذاکرات سے بہت پریشان ہے۔ اسرائیل میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ قابل اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ یہ امن کا اور مسئلے کو حل کرنے کا کریڈت لینے کے چکر میں ایران کے ساتھ کوئی ڈیل کر لے۔ اسرائیل ہر صورت میں ڈیل کے خلاف ہے اور چاہتا ہے کہ ہر صورت میں حملہ کیا جائے۔

ابھی نیویارک ٹائمز نے امریکی انتظامیہ کے حکام اور دیگر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے  ایک رپورٹ  شائع کی۔ اخبار کے مطابق اسرائیل نے مئی میں ان مقامات پر حملے کے منصوبے تیار کیے تھے، جن کا مقصد ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ایک سال یا اس سے زیادہ پیچھے دھکیلنا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے کہا کہ نہ صرف ایران کی جوابی کارروائی سے اسرائیل کے دفاع کے لیے بلکہ حملے کو کامیاب بنانے کے لیے بھی امریکی مدد درکار تھی۔ مہینوں کی اندرونی بحث کے بعد ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، بجائے اس کے کہ وہ فوجی کارروائی کی حمایت کریں۔ اس طرح کی رپورٹس ایسے وقت میں شائع کرائی جا رہی ہیں، جب امریکہ اور ایران کے  درمیان مذاکرات کا ایک دور ہوچکا ہے اور دوسرا ہونے جا رہا ہے۔

ان کا مقصد ایران کو دباو میں لانا بھی ہے، چند دن پہلے امریکہ کی طرف سے بیان آیا تھا کہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اسرائیل کی قیادت میں ایران پر حملہ کیا جائے گا۔ یہ سب نفسیاتی دباو کے حربے ہوتے ہیں۔ اسی پیرائے مین دیکھیں تو اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ رافائل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے بہت دور نہیں ہے۔ گروسی تہران کا دورہ کر رہے ہیں، انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات بھی کی۔ آج جمعرات 17 اپریل کو ان کی ایران کی جوہری توانائی کی ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی سے بھی ملاقات ہو رہی ہے۔ یہ سب ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ جس میں پوری حملہ آور قوت کو خطے میں بھیج دیا گیا ہے، اسرائیل کیا کرنا چاہتا ہے، اسے پھیلایا جا رہا ہے اور ایٹمی ایجنسی کے ذریعے سے بین الاقوامی رائے عامہ کو بھی گمراہ کیا جا رہا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ امن طاقت اور قربانی سے ملتا ہے، بغیر طاقت اور قربانی کے ملنے والی چیز نہیں ہے۔ آج مزاحمت کی طاقت ہے کہ امریکہ ایران سے مذاکرات کر رہا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ خطے میں سمندری تجارت ختم ہوچکی ہے، مسلسل امریکی جہازوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہ پوری طرح سے تیار ہیں۔شام کے جشن منانے والے سوڈان پر سوگ منا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی دفاعی حکمت عملی پر بہت زیادہ کام کیا ہے، آج اسی وجہ سے اس کا دفاع مضبوط ہے۔ کرنل لارنس ولکرسن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کے چیف آف اسٹاف تھے۔ ولکرسن اور ان کے سابق فوجی ساتھیوں کو بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ چھڑتی ہے تو فتح ایران ہی کی ہوگی۔ یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔

ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُس وقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔ ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ ولکرسن کی یہ بات درست ہے اور اسی وجہ سے ایران سے براہ راست جنگ کا آپشن صرف دھمکیوں کی حد تک ہے، ورنہ خطے میں تباہی آئے گی، جس کی حرارت یورپ تک محسوس کی جائے گی۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران امریکا کے جا رہا ہے کہ ایران ایران کی ایران کے چاہتا ہے ایران سے ہے اور ا کے ساتھ نہیں ہے کے خلاف کے لیے جنگ کا کیا جا

پڑھیں:

رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی

اسلام ٹائمز: آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

گذشتہ ہفتے ایران کی خارجہ پالیسی امریکہ اور سعودی عرب سے روس تک فعال رہی۔ اہم سفارتی واقعات رونماء ہوئے اس اسٹریٹجک تحرک میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ  نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کی اس حکمت عملی کو چند نکات میں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک: رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پہلا بڑا قدم ٹرمپ کے خط کے جواب میں ایسی تدبیر اختیار کرنا تھا، جس سے سانپ کو مار کر لاٹھی بھی بچانا تھا۔ اس حوالے سے  امریکہ پر مذاکرات کے مقام کو مسلط کرنا، مذاکرات کو بالواسطہ بنانا اور سفارت کاری اور اقتدار آمیز فوجی پیغامات کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے عمل کو کم کرنا تھا۔

دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام  دینا چاہتے ہیں کہ وہ  مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔

اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی  حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔

چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔

آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔

بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں،  فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"

متعلقہ مضامین

  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا
  • جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی
  • امریکا سے جوہری مذاکرات سے قبل ایران کا بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ
  • رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی
  • ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات: کیا یورپ یوکرین کے معاملے میں اہمیت اختیار کر گیا ہے؟
  • یہ نہیں کہوں گا ایران پر اسرائیلی حملہ منسوخ کر دیا، اس کے پاس عظیم ملک بننے کا موقع ہے، ٹرمپ
  • ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی دوسری نشست روم میں ہوگی.ایرانی نائب وزیرخارجہ کی تصدیق
  • ٹیرف معاملہ:امریکہ مذاکرات  چاہتا ہے تو بلیک میلنگ کی پالیسی ترک کرے، چین