خیبر پختونخوا حکومت کا احساس گھر پروگرام، قرضہ کے حصول کی شرائط کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
خیبر پختونخوا حکومت نے پی ٹی آئی فلیگ شب پروگرام احساس کی احساس اپنا گھر اسکیم کے تحت بلا سود قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے لیے کم آمدنی والے افراد بینک آف خیبر میں 8 مئی تک درخواست دے سکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بینک آف خیبر کے ذریعے یہ قرضے فراہم کرے گی، جو ان افراد کے لیے ہے جو کم آمدنی کے باعث اپنے مکان تعمیر نہیں کرسکتے، حکومتی اعلامیے کے مطابق اسکیم کے تحت 15 لاکھ روپے تک بلا سود قرضے جاری کیے جائیں گے۔
اسکیم کم آمدن والوں کے لیے، لیکن کم از کم تنخواہ کتنی ہونی چاہیے؟صوبائی حکومت کے مطابق یہ اسکیم کم آمدنی والے تنخواہ دار یا دیگر افراد کے لیے ہے، جو اپنی آمدن سے گھر بنانے سے قاصر ہیں، حکومت نے قرضے کی حد، ادائیگی، عمر سمیت دیگر شرائط بھی رکھی ہیں۔
قرض کے مستحق ہونے کی شرائط کے مطابق قرضے کے خواہشمند درخواست گزار کی ماہانہ آمدن یا تنخواہ کم از کم ایک لاکھ روپے ہونی چاہیے جبکہ اس کی عمر 18 سے 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر درخواست گزار کا صوبے کا رہائشی ہونا بھی لازمی شرط ہے۔
4 ارب روپے قرضے کی مد میں مختص، واپسی کتنے سال میں؟صوبائی حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق حکومت نے احساس گھر اسکیم کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو قرضے کی واپسی کے ساتھ درخواست گزاروں میں دوبارہ بطور قرض فراہم کیے جائیں گے۔
بینک آف خیبر کے مطابق قرضہ حاصل کرنیوالے شہری آسان اقساط میں 7 سال کے عرصہ میں اپنا قرضہ واپس کرسکیں گے، جس میں ماہانہ ادائیگی کی قسط 18 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔
درخواست گزار کے نام پر 5 مرلہ یا اس سے کم سائز کا پلاٹ ہونا لازمی ہے، جس پر قرض کے پیسوں سے تعمیرات شروع کی جاسکے، حکومتی اعلامیے کے مطابق درخواست دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
دوسری جانب احساس اپنا گھر اسکیم کی شرائط پر تنخواہ دار طبقے نے سوالات اٹھا دیے ہیں، ان کا موقف ہے کہ کم از کم ایک لاکھ روپے تنخواہ کی شرط کی وجہ سے اصل حق دار محروم رہیں گے۔
ایک نجی ادارے سے وابستہ فیض احمد کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے کم ہے، ان کے مطابق اصل حقدار وہ اور ان جیسے دیگر لوگ ہیں جو نجی اداروں میں کام کرتے ہیں اور کم تنخواہ سے اپنا ذاتی مکان نہیں بنا سکتے۔
’میری ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے سے کم ہے تاہم بینک کی ماہانہ قسط آسانی سے ادا کرسکتا ہوں، لیکن کم از کم آمدن کی شرط کی وجہ سے قرض کی درخواست بھیجنے سے ہی قاصر ہوں۔‘
مزید پڑھیں:
علی نثار سرکاری ملازم ہیں، ان کے مطابق ان کی تنخواہ 80 ہزار روپے ہے۔ ‘جب ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ ایک لاکھ نہیں تو پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہ کنتی ہو گی۔‘
ان کے مطابق اگر احساس اپنا گھر اسکیم واقعی کم آمدنی والے طبقے کے لیے ہے تو کم از کم آمدن کی شرط ختم ہونا چاہیے تاکہ 50 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے شہری بھی درخواست دے سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احساس اپنا گھر اسکیم بینک آف خیبر پاکستان تحریک انصاف صوبائی حکومت کم آمدنی ماہانہ آمدنی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احساس اپنا گھر اسکیم پاکستان تحریک انصاف صوبائی حکومت ماہانہ ا مدنی احساس اپنا گھر اسکیم ایک لاکھ روپے صوبائی حکومت ماہانہ ا مدن کی تنخواہ کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
رواں سال پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت جانے والے کتنے پاکستانی حج نہیں کر سکیں گے؟
اس سال پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت سعودی عرب جانے والے پاکستانی عازمین کی تعداد میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے تحت صرف 23 ہزار 620 افراد ہی فریضہ حج ادا کر سکیں گے جبکہ تقریباً 67 ہزار افراد حج سے محروم رہ جائیں گے۔
پاکستان کے لیے حج 2024ء کا مجموعی کوٹہ تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار افراد پر مشتمل تھا، جسے مساوی طور پر سرکاری اور پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت تقسیم کیا گیا۔ تاہم پرائیویٹ حج آرگنائزرز کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے حج کے انتظامی امور میں کیے گئے نئے طریقہ کار، خاص طور پر آن لائن سروسز کے لیے مختص پورٹل اور غیر واضح ڈیڈ لائنز نے بڑے پیمانے پر مسائل پیدا کیے۔
پرائیویٹ آرگنائزرز کے مطابق سعودی حکومت نے منیٰ میں حاجیوں کے لیے زون کی خریداری کا پورٹل اکتوبر میں کھول دیا تھا، جبکہ دیگر انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے 14 فروری آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومتِ پاکستان نے حج آرگنائزرز کو اس ڈیڈ لائن سے بروقت آگاہ نہیں کیا، جس کے باعث کئی آرگنائزر تمام ضروری شرائط پوری نہ کر سکے اور ویزوں کا اجرا ممکن نہ ہو سکا۔
دوسری جانب وزارت مذہبی امور کے ترجمان عمر بٹ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت صرف حج پالیسی نافذ کرتی ہے، جس کی منظوری وفاقی کابینہ دیتی ہے اور تمام اقدامات سعودی حکومت کی ہدایات کے مطابق کیے جاتے ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے، جو تاخیر کی وجوہات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے گی۔ وزارت کے مطابق 14 فروری کی ڈیڈ لائن سے ستمبر میں آگاہ کیا جا چکا تھا، مگر بیشتر حج آرگنائزرز فنڈز کی کمی کا شکار تھے، جس کی وجہ سے معاملات تاخیر کا شکار ہوئے۔
حج آرگنائزرز پنجاب کے وائس چیئرمین احسان اللہ کے مطابق حکومت نے جنوری میں بکنگ کی اجازت دی، لیکن مالی ادائیگیوں اور بکنگ میں تاخیر کی وجہ سے صورتحال اس نہج پر آ پہنچی۔
اس تمام صورتحال نے ہزاروں عازمین حج کو شدید مایوسی سے دوچار کیا ہے، جو سال بھر کی تیاریوں اور امیدوں کے باوجود حج سے محروم رہ جائیں گے۔
Post Views: 1