Daily Ausaf:
2025-04-19@07:25:17 GMT

امن کی راکھ، محاصرہ، ہجرت، اور قوموں کی تقدیر

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

امریکی صدرکادعویٰ ہے کہ اس نے عہدہ سنبھالنے کے بعدغزہ اوریوکرین میں امن قائم کرنے کی سفارتی کوششیں شروع کردی تھیں لیکن ایران اورروس کی علاقائی مداخلت اور حماس،حزب اللہ جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ ناکام ہوچکی ہیں جبکہ روس، ایران اورحماس امریکی صدرکوعالمی صہیونی سازش کاایک مہرہ قرار دیتے ہوئے ان الزامات کی تردیدکررہے ہیں اورساری صورتحال کااسرائیل اوراس کے مربی امریکا اور مغربی ممالک کوقراردے رہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ ٹرمپ نے عہد صدارت سنبھالنے کے بعدچند ماہ کے دوران ہی پہلے غزہ پراپنے قبضے کے پلان کا اعلان کیا،یورپ کوملامت کرتے ہوئے ڈنمارک سے گرین لینڈجزیرہ واپس لینے کی دھمکی دے ڈالی، نیٹو پر شدید تنقیدکرتے ہوئے یورپی یونین کوبرابھلاکہا،اپنے پڑوسی کینیڈاپرکھلم کھلا دھمکیوں کی برسات کرتے ہوئے اس پربھی قبضہ کرنے کاشوشہ چھوڑا،اسرائیل کوخوش کرنے کے لئے یمن پربمباری شروع کردی اوراس کے بعد ایک عالمی تجارتی جنگ چھیڑبیٹھے ہیں اوراب ان کی توجہ کامرکزایران ہے جس پروہ تاریخی بمباری کی دھمکی دے کراقوام عالم کوخوفزدہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ ان کے پہلے دورِ اقتدار میں نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ایران کی تباہی انہیں مقصودہے تاکہ خطے میں اپنے کرائے کے سپاہی اسرائیل جیسا خنجر خلیجی ممالک کے سینے میں گھونپ کراپنے مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔
اب مسئلہ وہی ہے جوٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدارکے وقت تھا:کیاچیزہے جوایران کوجوہری ہتھیارحاصل کرنے سے روک سکتی ہے؟ایران اس بات کی تردیدکرتاہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش رکھتاہے لیکن دیگرممالک کاخیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کم ازکم جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت حاصل کرناچاہتاہے جو ایک ایسی خواہش ہے جس سے مشرق وسطی میں اسلحے کی دوڑیا یہاں تک کہ مکمل جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
2015ء میں ایران نے امریکا،برطانیہ، فرانس، جرمنی،روس اورچین کے ساتھ ایک معاہدے Joint Comprehensive Plan of Action’’جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن‘‘ پر اتفاق کیا۔اس کی شقوں کے تحت،ایران کواپنے جوہری عزائم محدودکرنے ہیں اوربین الاقوامی معائنہ کاروں کوملک میں داخلے اورمعائنے کی اجازت دینی تھی اوراگریہ ادارہ مطمئن ہوتواس کے عوض اس پرعائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جانی تھیں۔لیکن ٹرمپ نے 2018ء میں امریکاکواس معاہدے سے الگ کرلیا اور یہ دعویٰ کیاکہ اس سے ایران کی ملیشیازجیسے حماس اور حزب اللہ کومالی مددملی اوردہشت گردی بڑھی۔معاہدے سے نکلنے کے بعدامریکانے ایران پردوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔
اس کے ردعمل میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ پابندیوں کونظراندازکیااورزیادہ سے زیادہ یورینیئم جوہری ایندھن افزودہ کیا۔ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جلدہی جوہری وار ہیڈ بنانے کے لئے درکار یورینیم موجودہوسکتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کااندازہ ہے کہ اگر ایران کے60 فیصدافزودہ یورینیئم کے ذخیرے کواگلی سطح تک افزودہ کیاگیاتووہ تقریباچھ بم بنا سکتاہے۔
اب ایک مرتبہ پھرصدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران پر ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘کی اپنی سابقہ پالیسی کوبحال کردیاہے۔4فروری کوانہوں نے ایک یادداشت پردستخط کیے جس میں امریکی وزارت خزانہ کوایران پرمزیدپابندیاں عائدکرنے اورموجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک،خاص طورپرایرانی تیل خریدنے والے ممالک کو سزا دینے کاحکم دیاگیا۔اب وائٹ ہاؤس اس معاشی دباؤکے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤڈالنے کی امیدبھی کررہاہے۔گزشتہ ماہ صدرٹرمپ نے ایران کے رہبرِاعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کوایک خط بھیجاجس میں مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی اورچندماہ کے اندرمعاہدے کامطالبہ بھی سامنے آگیا۔اب عمان میں امریکی اورایرانی حکام کے درمیان براہ راست بات چیت کاآغازبھی ہوگیاہے جوکسی بھی اتفاق کے بغیرختم بھی ہوگیا ہے۔
ایران کے لئے امریکی دھمکی واضح ہے، معاہدے پرمتفق ہوں یافوجی کارروائی کا سامنا کریں۔ ٹرمپ نے کہاہے کہ اگرایران کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے ہیں تومجھے لگتا ہے کہ ایران کوبڑاخطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ایران میں کچھ پالیسی سازایسے معاہدے پر اتفاق کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں جس سے پابندیاں ہٹائی جاسکیں۔ بڑھتاہواافراط زر اورقدرکھوتی ہوئی کرنسی کے ساتھ ایران کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے لیکن اس طرح کے کسی بھی معاہدے میں ایسا سمجھوتہ شامل ہوسکتاہے جسے کچھ قبول کرناسخت گیر عناصر کے لئے مشکل ہو۔ایران کوحالیہ مہینوں میں بہت مشکلات کاسامناکرناپڑاہے۔ اس کی’’پراکسی ملیشیاز‘‘ اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران کمزورہوچکی ہیں اوراس کے علاقائی اتحادی شام کے صدر بشارالاسد اقتدارکھوچکے ہیں۔اس صورتحال میں تہران میں کچھ عناصریہ کہتے نظرآ رہے ہیں کہ شائد جوہری ڈیٹرنٹ تیارکرنے کاوقت آگیاہے۔ امریکااور ایران فی الوقت دوکناروں پردکھائی دیتے ہیں اوران کے مذاکراتی مؤقف واضح نہیں۔
لیکن امریکانے واضح کردیاہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کومکمل طورپرختم کرناچاہتا ہے،جس میں مزیدیورینیئم کی افزودگی کامکمل خاتمہ شامل ہو اورساتھ ہی ساتھ وہ چاہتاہے کہ ایران لبنان میں حزب اللہ اوریمن میں حوثیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ ایران کے لئے یہ شرائط قبول کرناناممکن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کسی بھی جوہری افزودگی پرمکمل پابندی، یہاں تک کہ پرامن مقاصد کے لئے بھی،طویل عرصے سے ایران کے لئے ایک حتمی سرخ لکیرکے طورپردیکھی جاتی رہی ہے۔ایرانیوں کی تکنیکی مہارت بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس کے سائنسدان دس سال پہلے کے مقابلے میں جوہری ہتھیار بنانے کے بارے میں اب کہیں زیادہ جانتے ہیں۔
صدرٹرمپ کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعدچندہی ماہ میں غزہ اوریوکرین میں امن قائم کرنے کی سفارتی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔عالمی سطح پربڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال اورکشیدگی نے اقوامِ عالم کوایک ممکنہ عالمی جنگ کے خدشے سے دوچار کردیاہے۔مشرق وسطی،یورپ اوربحرالکاہل خطے میں طاقت کے توازن میں شدیدتبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ اسرائیل کی ایما پر امریکا ایران پرالزام لگارہاہے کہ وہ ایران کا 60افزودہ یورینیم کاذخیرہ جوہری بم بنانے کی صلاحیت دیتاہے۔یہ مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑکوجنم دے سکتاہے، جس میں سعودی عرب،ترکی،مصراور6دیگرممالک بھی جوہری پروگرام شروع کرسکتے ہیں۔
صدرٹرمپ نے ایران کودوماہ کی مہلت دی ہے تاکہ وہ ایک نئے معاہدے پررضامندی ظاہر کرے ۔ بصورتِ دیگرفوجی کارروائی کا عندیہ دے رکھاہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران کے نے ایران ایران پر کرنے کی کے ساتھ

پڑھیں:

امریکا سے جوہری مذاکرات سے قبل ایران کا بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ

تہران میں آرمی ڈے کے موقع پر بھرپور فوجی قوت کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں جدید میزائلوں، نئے ڈرونز اور دیگر فوجی سازوسامان کی نمائش کی گئی۔ یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہونے والا ہے۔

آرمی ڈے کی سالانہ پریڈ میں صدر مسعود پزشکیان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی ایک مضبوط فوج کی موجودگی سے ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کی دلیر فوج نے دشمنوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔

ادھر ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف آج روم میں ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کی گزشتہ ملاقات عمان میں ہوئی تھی جو پینتالیس منٹ تک جاری رہی۔

مذاکرات سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کی، جس میں امریکا ایران مذاکرات سمیت دیگر عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

مشترکہ پریس کانفرنس میں عباس عراقچی نے کہا کہ مذاکرات سے پہلے امریکی ارادوں پر سنگین شکوک ہیں، لیکن ایران اس کے باوجود بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے پرامن حل کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا
  • امریکا سے جوہری مذاکرات سے قبل ایران کا بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ
  • ایران کا جوہری پروگرام(2)
  • ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
  • امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو ایٹمی پروگرام پر معاہدہ طے پاسکتا ہے، ایران
  • ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملے کا منصوبہ مسترد کر دیا، نیویارک ٹائمز
  • سعودی عرب کے ساتھ سول نیوکلیئر توانائی کے ابتدائی معاہدے کے قریب ہیں.امریکی وزیرتوانائی
  • ایران جوہری بم بنانے سے ’بہت دور‘ نہیں، رافائل گروسی
  • صدر ٹرمپ کی ایرانی جوہری مقامات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی کی مخالفت