ججز سینارٹی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا کوئی وکیل نہ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سینارٹی کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججوں کو نوٹس گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کا وکیل کون ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مجھے تینوں ججوں کی طرف سے پیغام ملا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر ، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف سپریم کورٹ میں کوئی وکیل نہیں کر رہے، تینوں ججوں نے کہا ہے آئینی بنچ جو بھی فیصلہ کرے گا انھیں قبول ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام آباد کورٹ کے
پڑھیں:
کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ٹرائل کے دوران قواعد و ضوابط پر عمل ہوا یا نہیں، اس حوالے سے وہ عدالت کو آگاہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے لیے قانونی گراؤنڈز تو دستیاب ہیں لیکن سویلین ملزمان کو اپنی مرضی کے وکیل تک رسائی کا حق میسر نہیں دیا گیا۔
اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے شاہ زمان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی یہی مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ شاہ زمان کیس میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ گراؤنڈز موجود تھے، لیکن اپنی پسند کے وکیل تک رسائی نہیں دی گئی۔
مزید پڑھیں: بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کے تحت غیر ملکی شہریوں کو فئیر ٹرائل کا حق حاصل ہے، لیکن کونسلر تک رسائی کو اپیل کا حق نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو بھی ویانا کنونشن کے تحت کونسلر رسائی دی گئی، مگر اپنے شہریوں کو ایسا حق نہیں دیا جا رہا، جو افسوسناک ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ اگر ملزم اپنی مرضی سے وکیل مقرر نہ کر سکے تو کیا حکومت ان کے لیے وکیل فراہم کرتی ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی ہاں، ایسی صورت میں حکومت سرکاری وکیل کی سہولت دیتی ہے۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: یہ کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
خواجہ حارث نے دلائل میں مزید کہا کہ غیر ملکی مجرموں کے معاملے میں جس ملک سے وہ تعلق رکھتا ہے، وہی ملک سینڈنگ اسٹیٹ کہلاتا ہے۔ اس تناظر میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کلبھوشن کے کیس میں بھارت سینڈنگ اسٹیٹ ہی تسلیم کیا گیا ہے، چاہے بھارت اسے مانے یا نہ مانے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس امین الدین خان خواجہ حارث سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلین شہریوں کے ٹرائل