Express News:
2025-04-19@07:07:23 GMT

بجلی کی کڑک اور فلسطینی بچے

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

گزشتہ رات اچانک موسم خراب ہوگیا اور رات کے پچھلے پہر بہت زیادہ طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ اچانک بجلی کے جانے سے بہت زیادہ اندھیرا ہوگیا، اس پر افتاد کہ بہت زیادہ شور کے ساتھ بادلوں نے گرجنا شروع کردیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بہت بڑا دھماکا ہوا اور بجلی کی کڑک سے بچوں کی آنکھ کھل گئی۔

میری چھوٹی بیٹی جس کی عمر 6 سال تھی وہ میرے ساتھ ہی سوئی ہوئی تھی۔ اس بجلی کی کڑک سے وہ زورسے چیخی اور ڈر کے مارے مجھ سے لپٹ کررونے لگی۔ میں نے اسے سمجھایا اور چپ کرایا کہ بجلی بہت دور کڑکی تھی اور یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس سے آپ کو کوئی نقصان نہيں ہوگا جبکہ وہ مسلسل روئے جارہی تھی۔ بڑے بچے بھی اس دھماکے اور بجلی کی کڑک سے ڈر کر جاگ گئے اور ہم انھیں سمجھانے بیٹھ گئے اور پھر آہستہ آہستہ بچوں نے دوبارہ نیند لینا شروع کردی۔

لیکن نیند میری آنکھوں سے اب بہت دور جاچکی تھی اور میری آنکھوں میں اہل فلسطین اور اہل غزہ کے بچوں کی تصاویر چل رہی تھیں کہ یہ بجلی کی کڑک تو ہمارے گھر پر آج آئی ہے لیکن ان کے سروں پر تو ہر روز چمک رہی ہوتی ہے۔ ہر روز ایسی سیکڑوں آوازیں ان کے بچوں کے دل کو دہلا رہی ہوتی ہیں، ہر روز آسمان ان کے سامنے جل رہا ہوتا ہے۔ ان پر تو ہر وقت یہ افتاد آتی رہتی اور وہ ایک چھوٹے سے علاقے کے پنجرے میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایئر اسٹرائیک ہر روز ہوتی ہے، ہر روز دھماکے اور شوروغل ہوتا ہے۔

آسمان کی جن فضاؤں میں ہمارے بچے رات کو تاروں کی بارات دیکھتے ہيں، رات کو چاند کی پھیلنے والی روشنی میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اہل غزہ کے بچے آسمان پر شوروغل کرتے اور دندناتے خون آشام طیاروں کی گھن گرج کو سن کر سہم جاتے ہوں گے کہ آج پتہ نہیں کون کون سے دوستوں کی جنت کی روانگی ہے اور صبح کو ان بچوں کی زندہ لاشیں اپنے شہید ہونے والے دوستوں کی کٹی پھٹی میتوں پر جاکرخاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ اسپتالوں کے مردہ خانوں میں جاکر اپنے دوستوں کی میتوں کو دیکھ کر سسکیاں بھرنے والے بچے، اپنے والدین کے ہاتھوں میں زخموں سے چھلنی بدن کے ساتھ کرب و اذیت کے ساتھ موت کو گلے لگانے والے بچے، بغیر کفن کے ملبے تلے دب کر سانس گھٹ کر شہید ہونے والے، غرض کہ جو بھی موت کی تعریف ہم کرسکتے ہیں وہ تمام کی تمام غزہ کے معصوم بچے برداشت کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس جارہے ہیں۔

ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی پیاری ماؤں کی میتیں پڑی ہوتی ہیں جبکہ پیار کرنے والے باپ بھی ان کےلیے کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کے پیار کرنے والے باپ سارا دن ان کےلیے غذائی اشیاء تلاش کرنے نکلتے ہیں تو شام کو واپسی پر نہ بچے ہوتے ہیں اور نہ گھر، بس کنکروں، پتھروں اور آہن و فولاد کا کچرا پڑا ہوتا ہے، جن کو وہ ناخنوں سے کریدنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید کوئی جسم صحیح حالت میں نکال سکیں۔ اس کوشش میں چند کو تو کامیابی ملتی اور بہت سے اپنے ناخنوں اور ہاتھوں کو زخمی کرکے تھک ہار کر ’’حسبی اللہ، حسبی اللہ‘‘ کہہ کر چلاتے رہتے ہیں کہ شاید ہماری آہ و بکا سن کر کسی مردہ ضمیر حکمران کا دل پسیج جائے اور وہ اسرائیل جیسے خون آشام درندے کو لگام دینے کےلیے انسانیت کو جگادے!

میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے دوبارہ نیند آجائے اور میں سوجاؤں تاکہ صبح آفس کی حاضری یقینی ہو اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں حرج نہ ہو، لیکن نہ جانے کیوں جس طرح باہر کا موسم اور آسمان برس رہا تھا، اسی طرح میرے دل کی آنکھیں بھی برس رہی تھی۔ میرے اندر بسنے والا انسان رو رہا تھا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، چنگیز اور ہلاکو کے دور کی کہانیاں تو سن رکھی تھی لیکن انسانیت کس طرح سسک سسک کر جیتی ہے یہ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

ایسے لگ رہا تھا کہ یہ بجلی کی کڑک میرے قلب پر مسلسل ہتھوڑے برسا رہی ہے اور ہر کڑک کے ساتھ ایک آواز آرہی ہے وہ بھی تمھارے بچوں جیسے ہیں، ان کے بھی بہت سے ارمان ہیں، ان کا بھی دل کھیلنے اور ہنسنے کو چاہتا ہے لیکن مسلسل گرتی عمارات اور گرتی لاشیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہوگئے ہیں۔

بھوک سے بلکتے ہوئے بچے، پیاس سے نڈھال بچے، زخموں سے بدن چور لیے ہوئے بچے، بغیر والدین کے یتیمی کا درد لیے ہوئے بچے، بغیر ادویات کے سسکتی ہوئی بے رحم موت کے منہ میں جانے والے بچے، زخمی ہو کر اسپتالوں میں جاکر بے ہوش کرنے والی ادویات کے بغیر زخموں کو سلائی کروانے والے بچے، ٹوٹی ہڈیوں اور کرچی کرچی جسم والے بچے، بغیر ہاتھوں اور پیروں کے اپاہج بچے، اپنے بہن بھائیوں کے جسموں کے ٹکڑوں کو کپڑوں میں اکٹھے کرنے والے بچے، اور بعض تو بغیر سر اور بغیر دھڑ کے بچے… ہائے میرے پیارے نبی کی پیاری امت کے لاوارث بچے، عرب وعجم کے حکمرانوں کے منہ پر اور انسانیت کے مردہ جسم پر لات مار کر جنتوں میں جانے والے یہ بچے کس حال میں ہیں، اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔

ہر روز ایک نئے امتحان کےلیے تیار ہونے والے بچے، لشکر فیل کی جہالت کا شکار ہوکر اپنے جسم وجان سے ہاتھ دھونے والے بچے، جدھر دیکھو ایک بے بسی ہے، ایک بے چارگی ہے، خود ہی گرتے ہیں، خود ہی سنبھلتے ہیں یہ فلسطینی بچے۔

اے آئی ٹیکنالوجی کے ظلم وستم کا شکار بچے، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں اگر دنیا میں اس وقت کوئی بھی ٹیکنالوجی معرض وجود میں آئی ہے تو تمام ٹیکنالوجی غزہ کے ان معصوم جسموں پر آزمائی جاچکی ہے اور ہر طرح کی بے رحم اور انسان دشمن ٹیکنالوجی کی بے رحم موجوں کا شکار ہونے والے فلسطین کے یہ بچے ہیں، بلکہ اگر عالم کفر نے کوئی بھی انسانیت کو مجروح اور ختم کرنے والی کوئی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہوئی ہے تو وہ تمام ان معصوموں پر برسائی جاچکی ہے۔ مزید ان ایام جنگ میں بھی اگر کسی نئی انسانیت کو ختم کرنے والی ٹیکنالوجی معرض وجود میں آئی ہوگی تو اس کا بھی استعمال اہل غزہ کے بھوکے پیاسے مفلوک الحال باشندوں پر کیا جاچکا ہوگا۔

آہ! میرے پیارے نبی ﷺ کی امت کا یہ وہ حصہ ہے جو مسلسل گزشتہ 77 سال سے کرب، اذیت اور اپنوں کی بے رخی اور آل یہود کے ظلم وستم کا شکار ہورہا ہے، چاروں طرف سے مقید اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے، جبکہ دشمن ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ اہل غزہ کی طرف پانی کی ایک بوند اور گندم کا ایک دانہ بھی ہم نہیں جانے دیں گے۔ زخمیوں کےلیے ادویات کی بندش ہے، یہ تو وہ خبریں ہیں جو ہم تک پہنچ چکی ہیں لیکن نہ جانے کیا کیا ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے، یہ تو میرا رب ہی جانتا ہے۔

آج اگر حماس والوں کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جارہا ہے تو کیا کوئی بتانے والا آئے گا کہ گزرے ہوئے 77 سال میں ان پر یہ ظلم وستم کیوں ہورہا ہے؟

آج اگر اہل اسرائیل کے گھروں پر میزائل گررہے ہیں اور وہ اس کا انتقام لے رہے ہیں تو گزشتہ 77 سال میں اہل فلسطین کیوں زیرعتاب تھے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اہل غزہ پر اپنا رحم کرے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہونے والے والے بچے کے ساتھ رہا تھا اہل غزہ کا شکار غزہ کے

پڑھیں:

اسرائیل نے غزہ کے 30 فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا، امداد کی فراہمی روکنے کا فیصلہ برقرار

غزہ: اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 18 مارچ سے غزہ میں دوبارہ کارروائیاں شروع کرنے کے بعد اب تک فلسطینی علاقے کے تقریباً 30 فیصد حصے کو ’سیکیورٹی بفر زون‘ میں تبدیل کر دیا ہے اور ایک ہزار 200 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعلان کیا کہ غزہ میں جنگ کے بعد بھی اسرائیلی فوج بفر زون میں موجود رہے گی، جیسا کہ لبنان اور شام میں ہے۔ اسرائیلی افواج نے جنوبی شہر رفح پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور فلسطینیوں کو چھوٹے علاقوں میں محدود کر دیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق 18 مارچ سے جاری حملوں میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ صرف گزشتہ دنوں میں شمالی غزہ میں 13 اور ایک فضائی حملے میں 10 افراد شہید ہوئے جن میں معروف مصنفہ اور فوٹوگرافر فاطمہ حسونا بھی شامل ہیں۔

طبی ادارے ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ غزہ اب ایک "اجتماعی قبر" بن چکا ہے جہاں نہ صرف فلسطینی بلکہ ان کی مدد کرنے والے بھی خطرے میں ہیں۔

ادھر اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی روکنے کا فیصلہ جاری رکھے گا۔ 

 

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں اسرائیلی حملوں سے مزید 64 فلسطینی شہید
  • گنداواہ، فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلی برآمد
  • ’جامع ڈیل چاہتے ہیں‘، حماس نے جنگ بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کردی
  • “امی، ابس میں آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟ فلسطینی بچے کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
  • امی، اب میں آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟ — فلسطینی بچے کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
  • 28 مئی والے قوم پرست، 9 مئی والے ملک دشمن ہیں: عطاء اللہ تارڑ
  • غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مزید 21 فلسطینی شہید، امریکا پر یمن میں فضائی حملوں کا الزام
  • اسرائیل نے غزہ کے 30 فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا، امداد کی فراہمی روکنے کا فیصلہ برقرار
  • غزہ کو اجتماعی قبر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ایم ایس ایف