جدید عہد میں میرا انتخاب فقہِ جعفری ہی کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: وہ الہیٰ علم، جو انسانی تاریخ میں وحی، نبوت اور ولایت کی صورت میں مسلسل منکشف ہوتا رہا، نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں امام علیؑ کی شکل میں باب العلم و بطورِ علمِ لدنّی جلوہ گر ہوا اور جب یہی علم امام جعفر صادقؑ کے توسط سے منظم و مدوّن ہوا تو فقہِ جعفری کہلایا، یوں یہ فقہ دراصل علمِ نبویؐ ہی کا قیامت تک کیلئے علمی و زمانی اظہار ہے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا آپکو آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا پسند ہے۔؟ اگر ایسا ہے تو صرف یقین نہیں بلکہ تجربہ کرکے دیکھ لیجئے کہ آپکو یہ دولت فقہِ جعفری کے سوا کہیں اور نہیں ملے گی۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
کیا آپ کو آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا پسند ہے؟ اگر ایسا ہے تو یقین رکھیے کہ فقہِ جعفری کے سوا آپ کو یہ دولت کہیں اور نہیں ملے گی۔ آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا یہ صرف آپ کی تمنّا نہیں بلکہ ہر باشعور انسان کا فطری مطالبہ ہے۔ چاہے آپ بینکار ہوں یا صحافی، انجینئر ہوں یا طبیب، قانون دان ہوں یا معلم، طالب علم ہوں یا کسی کے ہمسفر۔۔۔ کیا آپ کو لکیر کا فقیر بننے سے نفرت نہیں؟ ہم آزادانہ طور پر اپنی دنیا کو سنوارنا چاہتے ہیں اور آخرت کو نجات کا گلشن بنانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے آپ سے کم از کم اپنی زندگی میں ایک بار یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیئے کہ کیا قرآن اور اہلِ بیتؑ کے بغیر ہماری دنیا اور آخرت سنور سکتی ہے۔؟ ویسے ایک مسلمان ہونے کے ناتے اتنا تو ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح پیچیدہ سائنسی مسائل کے حل کے لیے ماہرین کی رہنمائی ناگزیر ہے، ویسے ہی روحانی اور معاشرتی زندگی کی پیچیدگیوں کے لیے بھی قرآن اور اہلِ بیت ؑ سے ہدایت لینا ضروری ہے۔ پھر ہم اس پر کیوں نہیں سوچتے کہ آج کے دور میں قرآن اور اہلِ بیت کا وہ حسین امتزاج کہاں ہے کہ جس سے ہمیں رہنمائی لینی چاہیئے۔؟
ہماری ساری دنیا میں اس وقت صرف فقہ جعفری کو ہی قرآن اور اہلِ بیت کی تعلیمات کا مجموعہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فقہ جعفری کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ یہ وہ فقہی نظام ہے، جو تقلیدِ جامد اور اندھی تقلید کو رد کرتے ہوئے عقلِ انسانی کو وحی کے تابع رکھتا ہے، مگر ساتھ ساتھ عقل کے کردار اور انسان کے سوال کرنے کے حق کو سو فیصد تسلیم کرتا ہے۔ یہاں احکام کی بنیاد صرف ظاہر الفاظ پر نہیں، بلکہ ان اصولوں پر ہے، جو عقلِ سلیم، مقاصدِ شریعت اور قرآنی مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔تقیید، تخصیص، قرائن، سیاق و سباق، عرف، عقل منبعی و عقل مصباحی۔۔۔ یہ تمام ذرائع اس فقہ میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے جدید قانون سازی میں عقلی اصول اور اجتہادی راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔
سوچنے اور سمجھنے والوں کی دنیا میں فقہِ جعفری کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے کہ اس میں نہ تو جہاد کوئی تجارت ہے اور نہ اجتہاد کوئی پیشہ۔ یہاں فتوے ڈالروں کے عوض نہیں بکتے، بلکہ فتووں کو علم، تقویٰ اور دلیل کے ترازو پر تولا جاتا ہے۔ اس صدی میں فقہِ جعفری نے ہر مسلمان کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا کسی ایسے فتوے یا مفتی کو قابلِ اعتماد سمجھا جا سکتا ہے، جو اُمّت کے مفادات کے بجائے سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہا ہو ؟ فقہِ جعفری اُمّت کے درمیان ہر فتنہ انگیز روش سے خود کو الگ رکھتی ہے اور دین کو استعماری ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف ایک مضبوط فکری دیوار قائم کرتی ہے۔ دینی مدارس اور علمی کانفرنسز میں مراجعِ تقلید، جو اس فقہ کے اعلیٰ نمائندے ہیں، اپنی اجتہادی آراء اور فقہی منہج میں زمانی اور مکانی تغیرات کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سائنس، طب، بینکاری، سیاست اور جدید ٹیکنالوجی جیسے میدانوں میں فقہِ جعفری کے پاس ایسے جوابات موجود ہیں، جو انسانی فطرت، معاشرتی ضرورت، جدید سماج اور کتاب و سُنّت دونوں سے ہم آہنگ ہیں۔ شیعہ علماء اور فقہاء اس میں سرگرداں نہیں ہوتے کہ کوئی سوال یا مسئلہ یہ مسئلہ پہلے کبھی تھا یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ شفاف طریقے سے یعنی مجتہد یا عالم کی ذاتی رائے اور میلان کے بغیر کتاب و سُنّت نے چودہ سو سال پہلے آج کے انسان کیلئے اس حوالے سے کیا رہنمائی فراہم کی ہے۔ چنانچہ فقہ جعفری کوئی مجرد فقہی احکام کی فقہ نہیں، بلکہ یہ ہر دور کے انسان کی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ ہمیں فراخدلی کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ کوئی بھی فقہ، جو انسان کے انفرادی و اجتماعی حقوق کی ضامن نہ ہو، وہ نہ قابلِ عمل ہے، نہ قابلِ اعتماد۔
صدیوں سے فقہِ جعفری میں انسانی حقوق، تعلیم و صحت کے مسائل، عورت کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، آزادیِ فکر اور شہری مساوات جیسے موضوعات پر متوازن، عقلی اور اصولی موقف اپنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فقہ میں انسان کی حرمت اور حق کو خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اُسے ہر حال میں بالاتر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی وہ اصول ہے، جو جدید انسانی حقوق کے عالمی منشور سے بھی ہم آہنگ ہے۔ تحقیق، مکالمہ، رواداری۔۔۔ یہ سب اس فقہی سوچ کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔ مذکورہ فقہ میں سوال اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ مطلوب اور ضروری ہے، کیونکہ بغیر سوال کے کوئی فہم جنم نہیں لیتا اور بغیر تحقیق کے کوئی ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے فقہِ جعفری کا دامن ان اذہان کو اپنی جانب کھینچتا ہے، جو تقلید کے ساتھ تفکر کو بھی دین کا حصّہ سمجھتے ہیں۔
یہ فقہ نہ صرف عقائد و عبادات کا احاطہ کرتی ہے بلکہ معاملات، فلسفہ، کلام، اخلاق اور معاشرتی سائنس جیسے موضوعات پر بھی بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ قدیم مسائل جیسے تقدیر و اختیار، توحید و امامت کے ساتھ ساتھ جدید ترین مباحث جیسے مصنوعی ذہانت، جنس کی تبدیلی اور اعضا کی پیوند کاری پر بھی یہ فقہ روشن فکرانہ، عقلی اور شریعت پر مبنی آراء پیش کرتی ہے۔ جس طرح قرآن مجید قیامت تک کے لیے ہدایت ہے، اسی طرح فقہِ جعفری قیامت تک کیلئے اس قرآن کی عملی تفسیر ہے، جو زمان و مکان کی ہر تبدیلی کے ساتھ اپنا نور بانٹتی ہے۔ یہ نور صرف عبادات یا اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو منوّر کرتا ہے۔ حدیث و روایت کے باب میں بھی اس فقہ کی علمی دیانت اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں نہ صرف راویوں کی سند پر تحقیق کی جاتی ہے، بلکہ روایت کے متن کو بھی عقل، قرآن اور سیرتِ نبوی کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔
اسی لیے اہلِ تشیع میں فتویٰ دینا عام علماء کا کام نہیں، بلکہ وہی لوگ یہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں، جو علم و تقویٰ کی اعلیٰ سند رکھتے ہوں۔ انہیں مراجعِ تقلید کہا جاتا ہے۔ ایسے رجالِ دین جو صرف مذہبی پیشوا نہیں، بلکہ فکری، اخلاقی اور سماجی رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔ فقہ جعفری درحقیقت نبیﷺ کی سنت، قرآن اور اہلِ بیتؑ کی تعلیم کا مجموعہ ہے۔ اسے فقہ جعفری اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ فقہ امام جعفر صادقؑ کے ذریعہ مدوّن، منظم اور عام ہوئی، حالانکہ اس کا اصل ماخذ قرآن کریم اور نبی کریمﷺ ہی کی تعلیمات ہیں۔ المختصر یہ کہ فقہ جعفری دراصل "علمِ قرآن اور علمِ نبویؐ کا ہی بہتا ہوا دریا ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے اس دریا کو علمی و عقلی اصولوں، روایتی و سماجی بنیادوں اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ منظم صورت میں پیش کیا، اس لیے یہ فقہ ان کے نام سے منسوب ہوئی۔
صاحبانِ دانش کیلئے عرض کروں کہ کسی علم کی نسبت اگر نام کے ساتھ جڑ جائے تو وہ اس کے ماخذ کی نفی نہیں بلکہ وہ نسبت اس علم کو نکھار کر زمانے کے فہم کے قابل بنانے والے کی پہچان ہوتی ہے۔ مزید آسان الفاظ میں یہ کہ کسی علم یا کتاب کا انتساب اگر کسی شخصیت کے نام ہو تو یہ اس کے اصل مصنّف کی تردید نہیں ہوتی۔ امام جعفرصادق ؑ نے دراصل علمِ قرآن و علمِ نبوی کو آیت و روایت سے نکال کر نظامِ حیات کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کسی علم کی تاریخ اگر کسی خاص ہستی سے منسوب ہو جائے تو یہ نسبت نہ اس علم کے ماخذِ اوّل کی نفی ہے اور نہ اس کی حقیقت کی تبدیلی۔ ایسی نسبت دراصل اس عقلِ فعال، قلبِ متصل اور لسانِ مبین کی خدمات و زحمات کا اعتراف ہے کہ جس نے علمِ نبوی ؐ کو ختمِ نبوّت کے بعد سماج کے جدید مکانی و زمانی فہم کے سانچے میں ڈھالا۔ نسبتِ جعفری، دراصل ایک تعیّن ہے، اُس عالمِ آلِ محمد ؐ کا جس نے علومِ نبوی کے دریا کو قیامت تک کیلئے اُمّت کیلئے قابلِ استفادہ بنایا۔
جدید زمانے کے اربابِ فہم و شعور اس پر توجہ دیں کہ علمِ الہیٰ خود ایک مسلسل انکشاف ہے، جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور مختلف آسمانی صحیفوں کی صورت میں منکشف ہوا۔ ختمِ نبوّت عہد کے میں اس الہیٰ علم نے نبویؐ علم کی صورت اختیار کی۔ اسی علم کا اعلان نبی ؐ نے "انا مدینۃ العم و علی بابھا" کہہ کر کیا۔ یہی نبوی علم علمِ لدُنّی بن کر پیکرِ علی ؑ میں ظاہر ہوا۔ اسی الہیٰ علم کو جو کبھی علمِ نبوی اور کبھی علم لدُنّی کی صورت میں منکشف ہوا، جب امام جعفرصادقؑ کے ہاتھوں مدوّن ہوا تو جعفری کہلایا۔ باالفاظِ دیگر وہ الہیٰ علم، جو انسانی تاریخ میں وحی، نبوت اور ولایت کی صورت میں مسلسل منکشف ہوتا رہا، نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں امام علیؑ کی شکل میں باب العلم و بطورِ علمِ لدنّی جلوہ گر ہوا اور جب یہی علم امام جعفر صادقؑ کے توسط سے منظم و مدوّن ہوا تو فقہِ جعفری کہلایا، یوں یہ فقہ دراصل علمِ نبویؐ ہی کا قیامت تک کیلئے علمی و زمانی اظہار ہے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا آپ کو آزادانہ طور پر سوچنا، سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا پسند ہے۔؟ اگر ایسا ہے تو صرف یقین نہیں بلکہ تجربہ کرکے دیکھ لیجئے کہ آپ کو یہ دولت فقہِ جعفری کے سوا کہیں اور نہیں ملے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سمجھنا اور حقیقت تک پہنچنا آزادانہ طور پر سوچنا قیامت تک کیلئے قرآن اور اہل کی صورت میں نہیں بلکہ جعفری کے ہیں اور کے ساتھ جاتا ہے کرتی ہے اور نہ کیا آپ کہ کیا یہ فقہ
پڑھیں:
وزیراعظم شہباز شریف پٹرول کی قیمتیں کیوں کم نہیں کر رہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اپریل 2025ء) وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں بر سر اقتدار آنے والی وفاقی حکومت نے ایک طرف تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی، دوسری طرف اس پر عائد لیوی میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں عوامی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر محمود نامی ایک صارف نے لکھا، ''عالمی منڈی میں جب قیمتیں اوپر جاتی ہیں تو حکومت پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی لیکن جب یہ قیمتیں کم ہو جاتی ہیں تو حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو سستا پٹرول فراہم کرنے سے گریز کرتی ہے۔
‘‘پاکستان: پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار پھر ریکارڈ اضافہ
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات، وجوہات
احمد شاہ نامی ایک بوڑھے کسان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سڑک ضرور بننی چاہیے لیکن اس کے لیے کسی اور منصوبے سے پیسے لیے جانے چاہییں کیونکہ ان کے بقول سڑک کے منصوبے کے پیسے ٹھیکیداروں اور کمیشن والوں تک پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن تیل کی قیمت کم ہونے سے کسان سمیت سارے غریب لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے: ''ہم پیٹر چلاتے ہیں، ٹریکٹر کرائے پر لیتے ہیں، زرعی اجناس ٹرانسپورٹ کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
ہماری گندم خریدتے وقت حکومت کہتی ہے کہ مارکیٹ فورسز ہی قیمت کا فیصلہ کریں گی لیکن پٹرول کے معاملے میں حکومت مارکیٹ فورسز کو کیوں کنٹرول کر رہی ہے؟‘‘ 'پٹرولیم مصنوعات سے ملنے والی لیوی سے سستی بجلی اور بلوچستان ایکسپریس روڈ‘پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ عوامی مفاد میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے میسر آنے والے وسائل عوام کو سستی بجلی دینے اور بلوچستان میں ایکسپریس روڈ بنانے میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عوام کو منتقل نہ کرنا اور اس پر لیوی کو بڑھانا بہت ہی نامناسب بات ہے۔‘‘ ان کے بقول حکومت ایسے فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹیوں اور پارلیمنٹ میں مشاورت کا قانونی و جمہوری طریقہ کار اختیار نہیں کر رہی۔
تجزیہ کار حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں حکومت کے پاس اہم معاشی فیصلوں کا اختیار نہیں ہے، اس لیے ایسے فیصلے طاقتور حلقوں کی طرف سے آتے ہیں۔
‘‘ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ''چونکہ یہ حکومت متنازعہ مینڈیٹ سے آئی ہے اور اسے ان فیصلوں کی سیاسی قیمت ادا کرنے کی بھی کوئی فکر نہیں ہے، اسی لیے وہ عوامی مفاد کو نظر انداز کر رہی ہے۔‘‘ حبیب اکرم سمجھتے ہیں کہ مائننگ، زراعت اور نہریں نکالنا تو اٹھارویں ترمیم کے مطابق صوبائی امور ہیں ان کو وفاقی حکومت کیوں دیکھ رہی ہے؟
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا، ''پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت ان لوگوں سے ٹیکس لینے میں ناکام ہو گئی ہے جن سے لیا جانا چاہیے تھا اب وہ اپنی غفلت کی سزا پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو دے رہی ہے۔
اس عمل سے اس غریب کو بھی ٹیکس دینا پڑے گا جو قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔‘‘حبیب اکرم کے مطابق ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ اسے منی بل کی طرح پارلیمنٹ میں آنا چاہیے تھا۔
عوام کی مایوسیپاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما جہانزیب ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم یہ توقع کر رہے تھے کہ پٹرول کی قیمت کم ہونے سے ہماری سیلز میں اضافہ ہوگا اور ہماری آمدنی میں بہتری آئے گی لیکن یہ نہ ہو سکا۔
‘‘لاہور کی سڑکوں پر چھابڑی والے نیامت کے مطابق، ''موٹر سائیکل پر چل پھر کر چیزیں بیچتا ہوں، مہنگا پٹرول زیادہ تر منافع لے جاتا ہے۔‘‘
یاد رہے نئے امریکی ٹیرف کے بعد عالمی کساد بازاری اور پٹرول کی طلب میں کمی کی وجہ سے عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
یاد رہے عمران خان کے دور حکومت میں شہباز شریف نے چند سال پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''پٹرول کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے سے ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ چکی ہے، پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں چار روپے اضافہ عوام پر ایک اور ظلم ہے، حکومت آئی ایم ایف کے مفاد میں قانون سازی کر لیتی ہے اور عوام کے ریلیف کے لیے دو تہائی کا جھوٹ گھڑ لیتی ہے۔
‘‘حکومتی ذرائع کے مطابق، ابتدائی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف نے پٹرول کی قیمت میں ممکنہ کمی کا اعلان کیا تھا، لیکن چند گھنٹوں بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ حکومتی مؤقف ہے کہ ''قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ مالی ضروریات اور ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات کے تحت کیا گیا ہے۔‘‘