دفعہ 370 کی منسوخی سے چند دن قبل نریندر مودی کیساتھ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے ایس اے دلت لکھتے ہیں کہ ملاقات کے دوران کیا ہوا، کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ اسلام ٹائمز۔ جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت مودی حکومت نے 2019ء میں آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں نہ صرف تقسیم کیا بلکہ اس کا درجہ گرا دیا، تو مقامی سیاستدانوں نے نئی دہلی پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا۔ ان سیاستدانوں میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے دو سابق وزرائے اعلیٰ اور باپ بیٹے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔ ان کا الزام تھا کہ دہلی نے کشمیر کے ساتھ دھوکہ بازی کی بالخصوص جس انداز سے یہ فیصلہ لیا اور عملایا گیا۔ تاہم بھارت کے سراغ رساں ادارے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ یا آر اینڈ اے ڈبلیو "را" کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے اپنی نئی کتاب "دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی۔ این ان لائیکلی فرینڈشپ" میں دعویٰ کیا ہے کہ فاروق ان سے مشورہ کرنے پر "دہلی کے ساتھ کام کرنے" کو تیار تھے۔

اتنا ہی نہیں دلت کے مطابق فاروق عبداللہ نے انہیں بتایا کہ ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی تجویز پاس کر سکتی تھی۔ ایک وزیراعلٰی اور ایک جاسوس کے درمیان انوکھی دوستی پر مشتمل اس کتاب میں دلت نے چند حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ "را" کے سابق سربراہ ایس اے دلت کا کہنا ہے کہ فاروق عبداللہ نے ان سے شکایت کی کہ نئی دہلی نے انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ ہم نے مدد کی ہوتی، دلت نے فاروق عبداللہ کے حوالے سے ان کی تازہ ترین کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ ان سے 2020ء میں ان سیاسی تبدیلیوں کے بعد پہلی بار ملے۔ اس کتاب کو اشاعتی ادارے جیگرناٹ نے شائع کیا ہے۔

ایس اے دلت کہتے ہیں کہ فاروق عبداللہ کو دفعات کی منسوخی اور قید و بند سے بہت گہری چوٹ لگی تھی لیکن انکا یہ کہنا کہ وہ اس اقدام میں "بھارتی حکومت کی مدد" کر سکتے تھے، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فاروق عبداللہ ایسی خوفناک سیاسی صورتحال میں جب عوامی دباؤ کا سامنا بھی ہو، کیسے عملی انداز سے سوچنے والے سیاستدان ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی سے چند دن قبل نریندر مودی کے ساتھ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے ایس اے دلت لکھتے ہیں کہ ملاقات کے دوران کیا ہوا، کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا کیونکہ فاروق عبداللہ نے یقینی طور پر کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی منسوخی

پڑھیں:

کتابوں’’چشم نم‘‘ اور ’’واپسی‘‘پر تبصرے

دنیا بھر میں کتابوں کے مترجمین کو بدیسی زبانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے وقت متن کا اصل مفہوم و لطف برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کسی بھی کتاب، مقالے یا مضمون کا اپنی ملکی زبان میں ترجمہ تو آسانی سے کیا جا سکتا ہے مگر تحریر کی بنیادی روانی اور سلاست کو قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ گزشتہ ہفتے دو کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور یہ کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ یہ دونوں کتب مصنفین کے انڈیا یاترا کے تاثرات ہیں۔ پہلے پہل سفرنامے بڑے شوق سے لکھے اور پڑھے جاتے تھے جن میں مستنصر حسین تارڈ کی سفری رودادِیں ’’ٹاپ آف دی لسٹ‘‘ ہیں۔ تارڈ صاحب زود لکھاری ہیں۔ ان کے بارے میں ازراہ تفنن کہا جاتا ہے کہ وہ غیرملکی سیروسیاحت کے دوران کسی ہوٹل میں ایک رات گزارتے ہیں تو وہ اس کا احوال بیان کرنے میں ایک پوری کتاب مکمل کر لیتے ہیں۔ لیکن تارڈ صاحب کی خوبی یہ ہے کہ ان کے سارے سفرنامے سلیس اردو زبان میں ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو پڑھنے سے ہندوستان، وہاں کے مقامی کلچر، لوگوں کی عادات، رویوں اور سیرگاہوں وغیرہ کے بارے میں میری معلومات میں تو کافی اضافہ ہوا ہے مگر سچی بات ہے کہ ان انگریزی زبان میں لکھی کتب پر اردو میں تبصرہ کرنا میرے لئے کافی مشکل تجربہ رہا۔
ایک کتاب کا اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کتاب کا نام ’’چشم نم‘‘ ہے جس کا انگریزی ٹائیٹل ’’موئسٹ آئیڈ‘‘ Moist-Eyed ہے۔ حالانکہ چشم نم کا انگریزی ترجمہ ’’برننگ آئیز‘‘ Burning-Eyes بھی کیا جا سکتا تھا۔ اردو زبان کے عظیم انشاپرداز مولانا محمد حسین آزاد آنسوں کو ’’آب حیات‘‘ کہا کرتے تھے اور پھر اسی کو عنوان بنا کر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔ یہ کتاب(آب حیات) مولانا محمد حسین آزاد کی وہ تصنیف ہے جسے کلاسیکی شاعروں کا جدید تذکرہ شمار کیا جاتا ہے۔ چشم نم کی مصنفہ پروفیسر نوشابہ صدیقی ہیں اور اس کے مترجمین نثار اختر اور اشعر نور ہیں۔ موصوف مصنفہ ابھی نوعمر تھیں جب قیام پاکستان کے وقت الگ اور آزاد وطن کی محبت میں(اور یتیمی کی حالت میں) وہ زندگی کا سب کچھ بھارت چھوڑ کر پاکستان آ گئیں جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس، ماس کمیونیکیشن اور اردو میں تین ماسٹر ڈگریز حاصل کرنے سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گئیں۔ وہ ایک کالج کی پرنسپل کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کراچی میں بطور پروفیسر اور پرنسپل پوری تین نسلوں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا۔ وہ متعدد دیگر کتابوں کی مصنف ہیں، بہت سے ایوارڈز حاصل کیئے اور پاکستان ریڈیو و قومی ٹیلی ویژن پر سینکڑوں پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ موصوفہ مرنجان مرجان شخصیت ہیں اور استادوں کی استاد ہیں۔ ایک استاد جب طلبا کو لیکچر دیتا ہے تو خود اس کا علم اور یادداشت بھی بڑھتی ہے۔ دراصل تعلیم و تربیت ایک ایسا تخلیقی عمل ہے کہ انسان کا علم جوں جوں بڑھتا ہے اس کی علمی تشنگی میں بھی توں توں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان میں جتنی بھی علمی و ادبی وسعت آ جائے وہ احساس تشکر کی وجہ سے اپنی مٹی یعنی ’’جنم بھومی‘‘ کو کبھی نہیں بھولتا ہے۔ نوشابہ صدیقی کو واپس بھارت جا کر اپنی آبائی پیدائش کو دیکھنے کے لیئے چھ دہائیوں یعنی 60سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد 2014 ء میں وہ دن آیا جب نوشابہ صاحبہ کو دو ہفتوں کے لیئے انڈیا جانے کا موقعہ ملا۔ یہ لمحہ کتنا عجیب و غریب اور کیسی جذباتی کیفیات سے بھرپور ہو گا جب انہوں نے پاکستان و بھارت کی تقسیم اور ہجرت کے 60برس بعد دوبارہ ان بازاروں، گلیوں اور مکانوں کو دیکھا ہو گا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بالخصوص ان کے بیٹے اشعر نور نے کیا ہے جس میں وہ کتاب کے تعارف میں ایک جگہ لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے کہ،یہ ایک یتیم لڑکی کے سفر کی سچی کہانی ہے جس نے اپنے آبا و اجداد کی یادیں کریدنے کے لئے چھ دہائیوں تک انتظار کیا تاکہ تقسیم کے دوران جو نقصان ہوا، جو قربانیاں دی گئیں اور اس دوران جو درد محسوس کیا گیا اسے یاد رکھا جا سکے۔
(جار ی ہے )

متعلقہ مضامین

  • ایس اے دلت کی کتاب کا حقیقت سے دور کا واسطہ نہیں ہے، عمر عبداللہ
  • آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے بڑا ریلیف، ایف بی آر نے تجاویز تیار کر لیں
  • پاکستانی معیشت کو 20 کھرب ڈالر تک پہنچانے کیلئے شراکت داری پر تیار: برطانوی ہائی کمشنر
  • برطانیہ پاکستانی معیشت کو 2ٹریلین ڈالر تک لے جانے میں شراکت داری کیلئے تیار
  • کتابوں’’چشم نم‘‘ اور ’’واپسی‘‘پر تبصرے
  • ہم موجودہ شامی حکومت کی مدد کیلئے تیار ہیں، نائب ایرانی وزیر خارجہ
  • "را" کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے، ڈاکٹر فاروق عبداللہ
  • ٹک ٹاک اب گوگل میپس کو ٹکر دینے کیلئے بھی تیار،اہم خبر آ گئی
  • حکومت انسدادِ منشیات کے ہر شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینے کیلئے تیار ہے، محسن نقوی