’ساتھی ہاتھ بڑھانا‘: چیلسی کے رہائشیوں کا ہزاروں کتابیں شفٹ کرنے کا انوکھا طریقہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
امریکی ریاست مشی گن کے ایک چھوٹے سے شہر چیلسی کے ہر عمر کے رہائشیوں نے علاقے کی ایک کتب فروش کی دکان کی شفٹنگ میں انوکھے انداز میں مدد کی۔
یہ بھی پڑھیں: گھر کے نیچے کئی کمرے اور سرنگیں برآمد، مالک حیران رہ گیا
انہوں نے ایک انسانی زنجیر بنائی اور کتب فروش کو اپنی 9،100 کتابوں کو ایک ایک کرکے کچھ فاصلے پر واقع ایک نئے اسٹور میں منتقل کرنے میں مدد کی جس سے دکان کی مالکن کا پیسہ اور وقت دونوں بچ گئے۔
تقریباً 300 افراد پر مشتمل وہ ’بک بریگیڈ‘ اپنے علاقے کے مرکز چیلسی میں ایک فٹ پاتھ کے ساتھ 2 لائنوں میں کھڑی ہوئی اور پھر اس نے کتابوں کی دکان Serendipity Books کے سابقہ مقام سے ہر کتاب کو ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہوئے براہ راست نئی عمارت میں موجود شیلفس پر قرینے سے سجایا۔
اسٹور کی مالک مشیل ٹوپلن نے کہا کہ کتابوں کو منتقل کرنے کا یہ ایک عملی طریقہ تھا لیکن یہ ہر ایک کے لیے حصہ لینے کا ایک طریقہ بھی تھا۔
مشیل ٹوپلن نے کہا کہ جب لوگ کتابیں ایک دوسرے کو پاس کر رہے تھے تو اکثر نے کچھ کتابیں دیکھ کر کہا کہ ارے یہ تو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اور بھی اچھا ہوا کیوں کہ اب لوگ ان سے وہ کتابیں خرید کر لے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام کتابوں کو پرانی دکان سے نکال کر نئی دکان کے شیلفس تک پہنچانے میں صرف 2 گھنٹے صرف ہوئے۔
مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
مشیل ٹوپلن نے کہا کہ اگر وہ کسی کمپنی کی خدمات ہائر کرتیں تو وہ کتابوں کو پہلے ڈبوں میں پیک کرتی پھر نئی دکان جاکر ان کو ان پیک کرتی جو ایک وقت طلب کام ہوتا اور پیسے بھی خرچ ہوتے لیکن ان کے علاقے کے لوگوں نے بڑے آرام سے وہ ہزاروں کتابیں حروف تہجی کی ترتیب سے نئی دکان کے شیلفس پر رکھ دیں۔
اب مشیل ٹوپلن کو امید ہے کہ نئی جگہ 2 ہفتوں کے اندر کھل جائے گی۔
کتابوں کی دکان 1997 سے ڈیٹرائٹ سے تقریباً 95 کلومیٹر مغرب میں چیلسی میں ہے۔ مشیل ٹوپلن سنہ 2017 سے مالک ہیں اور اس کے 3 جز وقتی ملازمین ہیں۔
چیلسی کے انسان دوست رہائشیتقریباً 5،300 لوگ چیلسی میں رہتے ہیں اور ان رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پڑوسی پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں۔
یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور لوگ واقعی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟
ایک رہائشی 32 سالہ کیسی فریس کا کہنا ہے کہ اس قصبے میں آپ کہیں بھی جائیں آپ کو جو ملے گا وہ آپ کا جاننے والا ہی ہوگا اور آپ سے حال احوال دریافت کرے گا۔
کیسی فریس نے کہا کہ اس ’بک بریگیڈ‘ کا کارنامہ اس بات کا ثبوت پہے کہ وہاں کے رہائشی کتنے خاص لوگ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا چیلسی چیلسی کے شاندار رہائشی کتابوں کی شفٹنگ مشی گن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چیلسی چیلسی کے شاندار رہائشی کتابوں کو نے کہا کہ چیلسی کے
پڑھیں:
کتابوں’’چشم نم‘‘ اور ’’واپسی‘‘پر تبصرے
دنیا بھر میں کتابوں کے مترجمین کو بدیسی زبانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے وقت متن کا اصل مفہوم و لطف برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کسی بھی کتاب، مقالے یا مضمون کا اپنی ملکی زبان میں ترجمہ تو آسانی سے کیا جا سکتا ہے مگر تحریر کی بنیادی روانی اور سلاست کو قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ گزشتہ ہفتے دو کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور یہ کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ یہ دونوں کتب مصنفین کے انڈیا یاترا کے تاثرات ہیں۔ پہلے پہل سفرنامے بڑے شوق سے لکھے اور پڑھے جاتے تھے جن میں مستنصر حسین تارڈ کی سفری رودادِیں ’’ٹاپ آف دی لسٹ‘‘ ہیں۔ تارڈ صاحب زود لکھاری ہیں۔ ان کے بارے میں ازراہ تفنن کہا جاتا ہے کہ وہ غیرملکی سیروسیاحت کے دوران کسی ہوٹل میں ایک رات گزارتے ہیں تو وہ اس کا احوال بیان کرنے میں ایک پوری کتاب مکمل کر لیتے ہیں۔ لیکن تارڈ صاحب کی خوبی یہ ہے کہ ان کے سارے سفرنامے سلیس اردو زبان میں ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو پڑھنے سے ہندوستان، وہاں کے مقامی کلچر، لوگوں کی عادات، رویوں اور سیرگاہوں وغیرہ کے بارے میں میری معلومات میں تو کافی اضافہ ہوا ہے مگر سچی بات ہے کہ ان انگریزی زبان میں لکھی کتب پر اردو میں تبصرہ کرنا میرے لئے کافی مشکل تجربہ رہا۔
ایک کتاب کا اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کتاب کا نام ’’چشم نم‘‘ ہے جس کا انگریزی ٹائیٹل ’’موئسٹ آئیڈ‘‘ Moist-Eyed ہے۔ حالانکہ چشم نم کا انگریزی ترجمہ ’’برننگ آئیز‘‘ Burning-Eyes بھی کیا جا سکتا تھا۔ اردو زبان کے عظیم انشاپرداز مولانا محمد حسین آزاد آنسوں کو ’’آب حیات‘‘ کہا کرتے تھے اور پھر اسی کو عنوان بنا کر انہوں نے یہ کتاب لکھی۔ یہ کتاب(آب حیات) مولانا محمد حسین آزاد کی وہ تصنیف ہے جسے کلاسیکی شاعروں کا جدید تذکرہ شمار کیا جاتا ہے۔ چشم نم کی مصنفہ پروفیسر نوشابہ صدیقی ہیں اور اس کے مترجمین نثار اختر اور اشعر نور ہیں۔ موصوف مصنفہ ابھی نوعمر تھیں جب قیام پاکستان کے وقت الگ اور آزاد وطن کی محبت میں(اور یتیمی کی حالت میں) وہ زندگی کا سب کچھ بھارت چھوڑ کر پاکستان آ گئیں جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس، ماس کمیونیکیشن اور اردو میں تین ماسٹر ڈگریز حاصل کرنے سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گئیں۔ وہ ایک کالج کی پرنسپل کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کراچی میں بطور پروفیسر اور پرنسپل پوری تین نسلوں کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا۔ وہ متعدد دیگر کتابوں کی مصنف ہیں، بہت سے ایوارڈز حاصل کیئے اور پاکستان ریڈیو و قومی ٹیلی ویژن پر سینکڑوں پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ موصوفہ مرنجان مرجان شخصیت ہیں اور استادوں کی استاد ہیں۔ ایک استاد جب طلبا کو لیکچر دیتا ہے تو خود اس کا علم اور یادداشت بھی بڑھتی ہے۔ دراصل تعلیم و تربیت ایک ایسا تخلیقی عمل ہے کہ انسان کا علم جوں جوں بڑھتا ہے اس کی علمی تشنگی میں بھی توں توں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان میں جتنی بھی علمی و ادبی وسعت آ جائے وہ احساس تشکر کی وجہ سے اپنی مٹی یعنی ’’جنم بھومی‘‘ کو کبھی نہیں بھولتا ہے۔ نوشابہ صدیقی کو واپس بھارت جا کر اپنی آبائی پیدائش کو دیکھنے کے لیئے چھ دہائیوں یعنی 60سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد 2014 ء میں وہ دن آیا جب نوشابہ صاحبہ کو دو ہفتوں کے لیئے انڈیا جانے کا موقعہ ملا۔ یہ لمحہ کتنا عجیب و غریب اور کیسی جذباتی کیفیات سے بھرپور ہو گا جب انہوں نے پاکستان و بھارت کی تقسیم اور ہجرت کے 60برس بعد دوبارہ ان بازاروں، گلیوں اور مکانوں کو دیکھا ہو گا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بالخصوص ان کے بیٹے اشعر نور نے کیا ہے جس میں وہ کتاب کے تعارف میں ایک جگہ لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے کہ،یہ ایک یتیم لڑکی کے سفر کی سچی کہانی ہے جس نے اپنے آبا و اجداد کی یادیں کریدنے کے لئے چھ دہائیوں تک انتظار کیا تاکہ تقسیم کے دوران جو نقصان ہوا، جو قربانیاں دی گئیں اور اس دوران جو درد محسوس کیا گیا اسے یاد رکھا جا سکے۔
(جار ی ہے )