اپنے دل خصوصاً دھڑکن کی رفتار کو مستحکم رکھنا چاہتے ہیں تو تیز رفتاری سے چہل قدمی کو عادت بنالیں۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

بی ایم جے ہارٹ میں شائع تحقیق میں 4 لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔ان افراد کے چلنے کی رفتار کے ڈیٹا کو یوکے (UK) بائیو بینک نے اکٹھا کیا تھا۔

ان میں سے لگ بھگ 82 ہزار افراد کے مختلف رفتار سے چلنے کے تفصیلی ڈیٹا کو اکٹھا کیا گیا۔تحقیق میں سست رفتار (3 میل فی گھنٹہ سے کم رفتار)، معتدل رفتار (3 سے 4 میل فی گھنٹہ) اور تیز رفتاری (4 میل فی گھنٹہ سے زائد رفتار) کا تعین کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق 6.

5 فیصد افراد سست روی سے چلنے کے عادی تھے، 53 فیصد معتدل جبکہ 41 فیصد تیز رفتاری سے چہل قدمی کرتے تھے۔ان افراد کی صحت کا جائزہ 13 سال تک لیا گیا اور اس عرصے میں 4 لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد میں سے 36 ہزار 574 میں دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کی تشخیص ہوئی۔

طرز زندگی کے عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت ہوا کہ 4 میل فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے چلنے والے افراد میں دل کی دھڑکن کے مسائل کا خطرہ 35 سے 43 فیصد تک کم ہوتا ہے۔چلنے کی رفتار جتنی زیادہ ہوگی، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ اتنا کم ہوگا۔

اسی طرح معتدل رفتار سے چہل قدمی سے بھی یہ خطرہ 27 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کے دوران دھڑکن کی رفتار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جس سے فالج، ہارٹ فیلیئر اور کارڈک اریسٹ جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ یہ تحقیق مشاہداتی تھی تو نتائج کو حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔مگر انہوں نے کہا کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں چلنے کی رفتار اور دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا اور ایسے شواہد فراہم کیے گئے جو دونوں کے درمیان تعلق کا عندیہ دیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تیز رفتاری سے چہل قدمی سے موٹاپے اور ورم سے متاثر ہونے کا خطرہ گھٹ جاتا ہے جس سے دل کے مسائل سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سے چہل قدمی دل کی دھڑکن تیز رفتاری بے ترتیبی کی رفتار کا خطرہ

پڑھیں:

پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مدد کی ہے، عالمی ایجنسی

مجموعی طور پر 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 54 ہزار 33 افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں، ان میں سے 6 فیصد (48 ہزار 42 افراد) یکم جنوری 2025 سے اب تک واپس آ چکے ہیں۔ گرفتاری کا خوف (93 فیصد افراد کے) افغانستان واپس آنے کی اہم وجہ ہے، اس کے بعد فرقہ وارانہ دباؤ (29 فیصد) اور خاندان کے کسی رکن کی ملک بدری (18 فیصد) ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے کہا ہے کہ ستمبر 2023 میں افغان واپسی کی تحریکوں میں ڈرامائی اضافے کے بعد سے اب تک اس نے پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مدد کی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق یہ اعلان ایک ایسے نازک وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت پاکستان نے غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے (آئی ایف آر پی) کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے، جس سے 2025 کے دوران ایک اندازے کے مطابق 16 لاکھ غیر قانونی افغان تارکین وطن اور افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز متاثر ہوسکتے ہیں۔

ستمبر 2023 سے اب تک 24 لاکھ 30 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان مہاجرین پاکستان اور ایران سے واپس آچکے ہیں۔ اقوام متحدہ سے وابستہ بین الحکومتی تنظیم آئی او ایم کے مطابق ان میں سے 54 فیصد کو جبری طور پر واپس بھیجا گیا، تنظیم نے واپس آنے والے 10 لاکھ 3 ہزار 563 افراد کو آمد کے بعد انسانی امداد فراہم کی ہے۔ آئی او ایم افغانستان کے چیف آف مشن میہونگ پارک نے کہا کہ 10 لاکھ کی تعداد تک پہنچنا آئی او ایم اور ہماری شراکت دار ایجنسیوں دونوں کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ملک میں واپس آنے والے افغانوں کی مدد کرنے کے ہمارے جاری عزم کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بہت سے لوگوں کے پاس واپس آنے کے لیے بہت کم یا کچھ بھی نہیں ہے۔

پاکستان سے بڑے پیمانے پر واپسی کی ایک نئی لہر کے ساتھ، سرحد اور واپسی کے علاقوں میں زمینی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جو بڑی تعداد میں واپس آنے والوں کو جذب کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، آئی او ایم اور اس کے شراکت داروں نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانوں کی جبری واپسی کو فوری طور پر روکیں، جب تک کہ کسی شخص کی قانونی حیثیت سے قطع نظر محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حالات پیدا نہیں ہو جاتے۔ آئی او ایم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم سے 13 اپریل 2025 کے درمیان آئی او ایم نے جبری واپسی میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا۔

ایجنسی کے مطابق تقریباً 60 ہزار افراد طورخم اور اسپن بولدک سرحدی مقامات کے ذریعے افغانستان میں داخل ہوئے، آئی او ایم نے ان میں سے 10 ہزار 641 افراد کی مدد کی ہے۔ دریں اثنا، 2023 کے آخر میں ایران سے واپسی مسلسل زیادہ رہی اور 2024 تک جاری رہی، ایرانی حکام نے اس سال جلاوطنی میں اضافہ کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ مجموعی طور پر 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 54 ہزار 33 افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں، ان میں سے 6 فیصد (48 ہزار 42 افراد) یکم جنوری 2025 سے اب تک واپس آ چکے ہیں۔ گرفتاری کا خوف (93 فیصد افراد کے) افغانستان واپس آنے کی اہم وجہ ہے، اس کے بعد فرقہ وارانہ دباؤ (29 فیصد) اور خاندان کے کسی رکن کی ملک بدری (18 فیصد) ہے۔

سب سے زیادہ واپس آنے والوں کا تعلق پنجاب (28 فیصد)، بلوچستان (24 فیصد)، سندھ (21 فیصد) اور خیبر پختونخوا (20 فیصد) سے تھا۔ ایک چھوٹا سا حصہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (7 فیصد) سے بھی آیا، پاکستان سے واپسی کے اصل اضلاع میں کراچی (20 فیصد)، کوئٹہ (16 فیصد)، راولپنڈی (14 فیصد) اور پشاور (12 فیصد) شامل ہیں، دوسرے اضلاع میں واپس لوٹنے والوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ افغانستان میں واپس آنے والے زیادہ تر افراد سرحد کے قریب واقع صوبوں کا رخ کرتے ہیں جن میں کابل (20 فیصد)، قندھار (18 فیصد) اور ننگرہار (17 فیصد) شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • واک: کھانے سے پہلے یا بعد میں سودمند؟
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے بڑا ریلیف، تفصیلات سامنے آگئیں
  • ٹیرف وار: تجارتی تناؤ سے عالمی معیشت میں کساد بازاری کا خطرہ
  • تجارتی جنگ میں شدت، ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر ٹیرف بڑھا کر 245 فیصد کردیا
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے کیا ریلیف ملے گا، مجوزہ تفصیلات سامنے آ گئیں
  • پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مدد کی ہے، عالمی ایجنسی
  • لاہور: دکاندار کو قتل کرنے والے ملزمان کی گاڑی کا نمبر ٹریس، فرار ہونے کی ایک اور ویڈیو سامنے آگئی
  • جاپان کی آبادی مسلسل 14 ویں سال کم، معمر افراد کا تناسب ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا
  • جاپان کی آبادی مسلسل 14 ویں سال کم، معمر افراد کا تناسب ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا