“ہم بوڑھے ہوگئے ہیں! لیکن 43، 45 سالہ کرکٹرز پی ایس ایل کا حصہ ہیں”
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
قومی ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر عمل اکمل نے بھی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن میں 43 سالہ کرکٹر کو کھلانے پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔
اپنے یوٹیوب چینل پر عمر اکمل نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے ہمیں بتایا جاتا ہےکہ ہم بہت بوڑھے ہوگئے ہیں، نہ کھیل سکتے ہیں اور نہ ہی مینٹور بننے کے قابل ہیں لیکن 43، 45 سال کے کھلاڑی اب بھی کھیل رہے ہیں، ایسے میں ہم کیا کریں خودکو گولی مارلیں؟
انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت احمد شہزاد اور صہیب مقصود کو صرف اس وجہ سے نظرانداز کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ 34 سال کے قریب ہیں جب کہ اس سے بڑی عمر کے کھلاڑی اب بھی کھیل رہے ہیں۔
عمر اکمل نے بورڈ پر الزام عائد کیا کہ ہمارے ساتھ کھلاڑیوں کے انتخاب میں عمر کی بنیاد پر امتیاز برتا جا رہا ہے۔
انہوں نے فٹنس ٹیسٹ کے معیار پر بھی تنقید کرتے ہوئےکہا کہ کچھ سینئر کھلاڑی اور کوچز نے کبھی فٹنس ٹیسٹ دیے ہی نہیں، کچھ سینئرز کرکٹرز صرف پی ایس ایل کھیلنے کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں اور نوجوان ٹیلنٹ کو موقع نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل میں جب معروف کھلاڑیوں کو نہیں کھلایا جائے گا تو شائقین کیوں اسٹیڈیم آئیں گے؟۔
قبل ازیں سابق کرکٹر و قومی ٹیم کے بیٹنگ کنسلٹنٹ محمد یوسف نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن میں 43 سالہ شعیب ملک کے کھیلنے پر سوال اٹھایا تھا اور آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
سابق کرکٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو عمر رسیدہ کرکٹرز کو کھلانے اور انہیں سلیکٹ کرنے کے حوالے سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ایس ایل
پڑھیں:
چین اور ملائیشیا کے درمیان نئے “سنہری 50 سال” مزید بہتر ہوں گے ، چینی میڈیا
چین اور ملائیشیا کے درمیان نئے “سنہری 50 سال” مزید بہتر ہوں گے ، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 17 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ: چین کے صدر شی جن پھنگ نے 15 سے 17 اپریل تک ملائیشیا کا سرکاری دورہ کیا اور فریقین نے اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک چین ملائیشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر اور چین ملائیشیا تعلقات کے نئے “سنہری 50 سال” تخلیق کرنے پر اتفاق کیا۔چین اور ملائیشیا کے درمیان تعاون میں یہ تیزی دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دوستی، ملکی احیا کے لئے دونوں ممالک کی نیک خواہشات اور باہمی اقتصادی فوائد کی اعلی تکمیل کی وجہ سے ہے۔اسٹریٹجک نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس بار دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے کا جو سلسلہ طے پایا ہے وہ بڑی عملی اہمیت کا حامل ہے۔
چینی فریق نے نشاندہی کی کہ چین اور ملائیشیا کو اپنے قومی حالات کے مطابق ترقی کے راستے پر چلنے کے لئے مل کر کام جاری رکھنا چاہئے اور “اپنے مستقبل اور تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے کنٹرول کرنا چاہئے”۔ جبکہ ملائیشیا نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بین الاقوامی صورتحال کیسے تبدیل ہوتی ہے ، وہ فائدہ مند تعاون کے لئے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور اعلی سطحی اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دے گا۔
یہ تعاون دونوں فریقوں کے اعلی سطحی سیاسی باہمی اعتماد اور خود انحصاری کو ظاہر کرتا ہے۔دوسری طرف چین اور ملائیشیا دونوں خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے یکجہتی اور تعاون کو مضبوط بنانے کی وکالت کرتے ہیں، اور کثیر الجہتی تجارتی نظام کو مشترکہ طور پر برقرار رکھنے کا عہد کرتے ہیں. عملی تعاون چین ملائیشیا تعلقات کا ستون ہے۔ چین مسلسل 16 سال سے ملائیشیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور ملائیشیا کے لئے سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ ملائیشیا آسیان میں چین کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار او ر درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
دورے کے دوران دونوں ممالک کے رہنماؤں نے چین اور ملائیشیا کے درمیان 30 سے زائد دوطرفہ تعاون کی دستاویزات کے تبادلے کا مشاہدہ کیا، جس میں تین عالمی انیشی ایٹوز کے تحت تعاون ، ڈیجیٹل معیشت، خدمات میں تجارت، “دو ممالک، دو پارکوں” کی اپ گریڈیشن اور ترقی، مشترکہ لیبارٹریاں، مصنوعی ذہانت، ریلوے، دانشورانہ ملکیت کے حقوق اور چین کو زرعی مصنوعات کی برآمد کا احاطہ کیا گیا۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے صدر شی جن پھنگ کے دورے کو سراہتے ہوئے اسے “تعاون کا نیا بہترین نتیجہ” قرار دیا۔ توقع ہے کہ نئے “سنہری 50 سالوں” میں ، چین اور ملائیشیا کے مابین عملی تعاون مزید قریبی اور اعلی معیار کا حامل ہوگا ، جس سے دونوں ممالک کو زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔