سپریم کورٹ نے عمران خان سے ملاقات کرانے کیلئے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی استدعا مستردکردی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ نے عمران خان سے ملاقات کرانے کیلئے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی استدعا مستردکردی WhatsAppFacebookTwitter 0 16 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرانے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی ان کے وکیل کی استدعا مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق 9 مئی کیسز میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ریمانڈ سے متعلق اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا پولی گرافکس اور وائس میچنگ ٹیسٹ ہونا باقی ہے، جسمانی ریمانڈ صرف 2 ٹیسٹ کے لیے درکار ہے، بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں ایسی بات نہ کریں، ذوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ میرے موکل پر 300 سے زائد کیسز ہیں، غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ بانی پی ٹی آئی سے ہدایات لینے کیلئے سپریم کورٹ خصوصی ہدایات جاری کرے، سپریم کورٹ کی خصوصی ہدایات ہوں تو میری ملاقات بانی پی ٹی آئی سے ہو جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جب بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے جانا ہے چلے جائیں، ہم کوئی حکمنامہ جاری نہیں کریں گے، آپ بغیر عدالتی حکمنامے ملاقات کریں، ملاقات ہو جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بغیر حکمنامے کے ملاقات کرا کر دکھائیں، عدالت نے سلمان صفدر کو اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی سے ملاقات کرکے ہدایات لینے کیلئے وقت فراہم کردیا اور کیس کی سماعت 23 اپریل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ سے ملاقات
پڑھیں:
وفاقی حکومت کی ججز تعیناتی کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا ، جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16اپریل 2025)وفاقی حکومت کی ججز تعیناتی کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا ، جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا، وفاقی حکومت نے ججز کے تبادلوں کو آئین کے مطابق قرار دیدیا،وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنے جمع کروائے گئے جواب میں کہا ہے کہ ججز کو تبادلے کے بعد نیا حلف لینا ضروری نہیں، آرٹیکل 200 کے تحت تبادلے کا مطلب نئی تعیناتی نہیں ہوتا، ججز کا تبادلہ عارضی ہونے کی دلیل قابل قبول نہیں ہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہو گا۔آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہوگا۔ ججز کے تبادلے سے عدلیہ میں شفافیت آئے گی نا کہ عدالتی آزادی متاثر ہوگی۔حکومت کے جواب میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے سے عدلیہ میں شفافیت آئے گی نہ کہ عدالتی آزادی متاثر ہوگی۔(جاری ہے)
جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو ججز تعینات کئے اور 3آسامیاں چھوڑ دیں۔ وزارت قانون نے 28 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلے کی سمری بھیجی تھی۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وزارت قانون نے 28 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلے کی سمری بھیجی۔ ججز تبادلے کیلئے صدر کا اختیار محدود جبکہ اصل اختیار چیف جسٹس آف پاکستان اورمتعلقہ ہائی کورٹس کے دو چیف جسٹس صاحبان اور ٹرانسفر ہونے والے جج کے پاس ہے۔جواب میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ایک مرتبہ جج ایک ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہو کر دوسری ہائیکورٹ جائے تو نئے حلف کی ضرورت نہیں۔جج کے تبادلے سے قبل چیف جسٹس پاکستان، دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور ٹرانسفر ہونے والے جج کی رضامندی ضروری ہے۔عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں لکھا ہے کہ تمام ہائی کورٹس کا حلف ایک سا ہی ہے، تبادلہ ہوکر آنے والے جج کا نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں، تمام ہائیکورٹس کے ججز کے تبادلے کا حلف ایک جیسا ہے، تبادلہ ہوکر آنے والے ججز اپنے ہائیکورٹس میں حلف اٹھا چکے ہیں۔ججز سنیارٹی کیس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرواتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سمیت تمام درخواست گزاروں کی درخواستیں خارج کی جائیں۔