دہشتگردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، آرمی چیف
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے پرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کیا، خطاب کے دوران اوورسیز پاکستانی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔
آرمی چیف نے اوورسیز پاکستانیوں کے کردار کو دل کھول کر سراہا اور فتنہ الخوارج، بلوچستان میں دہشت گردی، سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال، کشمیر اور غزہ پر غیرمبہم اور واضح بات چیت کی۔ انہوں نے دو قومی نظریے اور پاکستان کی کہانی نئی نسل کو بتانے کی اہمیت پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیے: اوورسیز پاکستانیز کنونشن: وزیراعظم شہباز شریف نے کونسے اہم اعلانات کیے؟
اپنے خطاب میں آرمی چیف نے کہا کہ آپ صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں، بلکہ پاکستان کی وہ روشنی ہیں جو پورے اقوام عالم کو روشن کرتی ہے، برین ڈرین کا بیانیہ بنانے والے جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جب تک اس ملک کے غیور عوام افوج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، پاکستان کے سیکیورٹی اداروں میں جو بغاوت کو ہوا دیتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔
انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر دہشتگرد پاکستان کو روشن مستقبل کی جانب بڑھنے سے نہیں روک سکتے، دہشتگردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، بلوچستان پاکستان کی تقدیر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، جس ملک کے تمام ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں ایسی ریاست کو ‘ہارڈ اسٹیٹ’ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا وانا اور ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ، سرحد پر تعینات جوانوں کے ساتھ عید منائی
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم اپنے شہدا کو نہایت عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھتی ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، پاکستانیوں کا دل ہمیشہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید نہیں چھوڑنی اور مایوس نہیں ہونا، میں چاہتا ہوں اوورسیز پاکستانی دنیا میں پاکستان کی نمائندگی فخر کیساتھ کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کی آرمی چیف
پڑھیں:
وطن کی محبت میں بندھی اوورسیز کی آواز!
’’اسلام آباد کی دلکش فضاؤں میں جب پردیس سے آئے پاکستانی اپنے پرچم سینے سے لگائے کانفرنس ہال میں داخل ہو رہے تھے، تو وہ صرف شرکت کرنے نہیں آئے تھے۔ وہ اپنے وجود کے ساتھ ایک پیغام لے کر آئے تھے۔محبت کا، وفا کا، اور ریاست پر اعتماد کا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دل کی دھڑکن نے جغرافیہ کو شکست دی۔”اوورسیز پاکستانیز کانفرنس” صرف ایک تقریب نہ تھی، یہ ان زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش تھی جو سالہا سال سے ریاست اور پردیس میں بچھڑے پاکستانیوں کے درمیان حائل تھے۔ یہ اس خاموش اکثریت کا اظہار تھا جو سوشل میڈیا کے شور سے دور، خاموشی سے وطن کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔محبت جو بینک کی رسیدوں سے آگے ہے۔ ہمارےیہ اوورسیز پاکستانی سیاسی مداریوں کے تماشوں اور بیرونی ڈگڈگی پر ناچنے والے چند بوزنوں کی قلابازیوں سے متاثر ہوئے بغیر ، وطن پر جان چھڑکتے ہیں اور ہر سال پاکستان کو اربوں ڈالر کا زرِمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کی وطن پرستی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ جب فتنہ انتشار کے وطن دشمن ترسیلات زر روک دینے کا بیانیہ پاکستان دشمنوں کے اشارے پر پھیلارہے تھے تو وطن کے ان بیٹوں نے اپنا حق یوں ادا کیا کہ مارچ کے ایک مہینے میں ریکارڈ زرمبادلہ بھیج کر ملک دشمنوں کے منہ پر زناٹے کا طمانچہ ماراہے، یہ وہ خاموش مجاہد ہیں ، جو شورشرابہ اور ہنگامہ کئے بغیر وطن کی خدمت کو مقدم رکھتے ہیں، ان کی زبان بھلے خاموش رہے لیکن انہوں نے ملک دشمنوں کو منہ توڑ جواب دے کر اپنی قوت ثابت کردی ہے، خبر ہے کہ وزارت خزانہ نے اس سال کے لئے ترسیلات کا تخمینے میں دو ارب ڈالر کا اضافہ کرکے 38ارب کردیا ہے،مگر یہ محض ایک مالیاتی عدد نہیں، یہ پسینے، دعاؤں، محرومیوں اور خوابوں کا نام ہے۔ یہ وہ کمائی ہے جو بچے کی فیس کٹوا کر، اپنا کھانا چھوڑ کر، اپنے پیاروں اور وطن کی امیدوں کے لیے بھیجی جاتی ہے۔اوورسیز پاکستانی نہ صرف وطن سے محبت کرتے ہیں بلکہ اسے روح کا حصہ سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ نیویارک کی برفباری ہو یا دبئی کی تپتی دھوپ، ان کے دل کی دھڑکن لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ کے نام پر تیز ہو جاتی ہے۔ سیاسی نفرت کے شور میں سچ کا چراغ یہ کانفرنس ان سیاسی فتنہ پرستوں کے منہ پر طمانچہ تھی جنہوں نے گزشتہ برسوں میں اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی اور ان کے نام پر جھوٹ اور فریب کاری کا بازار گرم کئے رکھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی، اور حب الوطنی کو غداری کا لبادہ پہنایا۔لیکن اسلام آباد میں بیٹھے یہ پاکستانی، جو لندن، ٹورنٹو، ریاض، برلن، کوالالمپور اور اوسلو سے آئے تھے۔ انہوں نے خاموشی سے لیکن پورے وقار کے ساتھ بتا دیا کہ وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں، سازشی بیانیے کے ساتھ نہیں۔ ان کی شرکت خود ریاست پر اعتماد کی سب سے بڑی مہر تھی۔وعدوں سے آگے، کیا یہ نیا باب ہے؟وزیراعظم شہباز شریف کے اعلانات،گرین چینل کی بحالی، مشاورتی کونسل کا قیام، ون ونڈو سرمایہ کاری، ہاؤسنگ اسکیموں میں کوٹہ، اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مخصوص نشستیں،بلاشبہ خوش آئند ہیں،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ معاملات جب افسر شاہی کےہاتھ آئیں تو ہمارے ہاں الفاظ زیادہ، عمل کم ہوجاتا ہے، وزیر اعظم کو یاد رکھنا ہوگا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو اس بار کچھ مختلف چاہیے۔ انہیں سرخ قالین نہیں، قانون کا تحفظ، سرمایہ کاری میں سہولت، اور شناخت کی عزت چاہیے، جس کا وعدہ آرمی چیف نے اپنی دبنگ اور پرعزم تقریر میں کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ جب وہ پاکستان لوٹیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے،شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ ہوائی اڈوں پر رشوت خورمافیاز ان کی تذلیل نہ کریں۔
بھارت، چین، ترکی اپنے اوورسیز پر فخر کرنے والی قومیں ہیں۔بھارت نے اپنے )NRI (Non-Resident Indians کو صرف معاشی نہیں بلکہ سفارتی، سیاسی اور سائنسی میدان میں قومی ستون بنایا۔ بھارت کے اوورسیز ڈاکٹرز، انجینئرز اور سرمایہ کار دنیا بھر میں بھارت کے لیے لابنگ کرتے ہیں۔ ان کے لیے الگ وزارت ہے، اعزازات ہیں، اور ان کا مشورہ پالیسی سازی کا حصہ ہے۔چین نے Come back and build جیسے پروگرامز کے ذریعے اپنے ماہرین کو وطن واپس بلایا اور استفادہ کیا۔ آج چینی ٹیکنالوجی، میڈیکل ریسرچ، اور ڈیفنس انڈسٹری میں جو ترقی ہو رہی ہے، اس میں اوورسیز چینیوں کا براہِ راست کردار ہے۔ترکی نے یورپ میں مقیم ترکوں کو اعتماد دیااور سفارتی محاذ پر ایک قوت کے طور پر منوایا۔ ترک صدر طیب اردگان کے ہر دورے میں ترک ڈائسپورا ایک مضبوط قوت کے طور پر سامنے آتی ہے، اور انہیں کبھی بیگانہ نہیں سمجھا گیا۔اور ہم؟ ہم نے کیا کیا؟ہم نے اپنے اوورسیز کو صرف Remittance ATM سمجھا۔ نہ ان کی جائیدادوں کا تحفظ کیا، نہ ان کی سرمایہ کاری کو آسان بنایا، نہ ان کی عزت کا خیال رکھا۔ ایئرپورٹس پر تضحیک، سفارت خانوں میں تاخیر، اور عدالتی نظام کی سست روی۔ یہ سب ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے کم نہیں ۔
اوورسیز پاکستانیوں کو صرف “آپ کے بغیر ملک نہیں چل سکتا” کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ انہیں پالیسی میں، قانون میں، اور دل میں جگہ دینی ہوگی۔اگر یہ مجوزہ مشاورتی کونسل واقعی فعال ہوئی، او پی ایف کی طرح ناکارہ نہ ہوگئی اور اوورسیز پاکستانیوں کی رائے کو اہمیت دی گئی، تو یہ وہ پہلا قدم ہو سکتا ہے جس سے ہم دنیا کو دکھا سکیں گے کہ ہم اپنے لوگوں کو سراہتے ہیں۔اس کونسل کو صرف تقریریں سننے تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ اسے وہ اختیار دیا جائے جو پارلیمنٹ میں آواز بن سکے، کیونکہ یہی لوگ دنیا بھر میں پاکستان کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں۔ محبت، سچائی، اور عمل ۔۔۔ اوورسیز کانفرنس نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ قوم وہی زندہ رہتی ہے جو اپنے لوگوں کو پہچانتی ہے۔ اوورسیز پاکستانی صرف ترسیلات کا ذریعہ نہیں، وہ پاکستان کی “Global Identity” ہیں۔ وہ دنیا بھر میں پاکستان کے نمائندے ہیں۔آج اگر ہم نے ان کی آواز کو سنا، ان کے اعتماد کو لوٹایا، اور ان کے خوابوں کو عزت دی، تو وہ پاکستان کو وہاں لے جا سکتے ہیں جہاں ہم صرف خواب دیکھ سکتے ہیں، لیکن اگر ہم نے اس موقع کو بھی گنوا دیا، تو شاید دوبارہ وہ جذبہ واپس نہ آسکے جسے وہ اس کانفرنس میں لے کر آئے تھے۔اب سوال ریاست سے ہے، کیا وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے خلوص کا جواب خلوص سے دے گی؟ یا یہ محبت بھی کسی فائل میں دفن ہو جائےگی؟
اس کانفرنس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ فتنہ کی سیاست ہار گئی، وفا جیت گئی ،اوورسیز کانفرنس نے ثابت کیا کہ قوم کو فتنہ پرستوں سے زیادہ ان پاکستانیوں پر اعتماد ہے جو سینکڑوں میل دور رہ کر بھی اپنے وطن سے وفا نبھا رہے ہیں۔ جنہوں نے فیس بک کی پوسٹوں یا یوٹیوب کی تقاریر کے بجائے، ریاست پر بھروسہ کیا، آئین اور اداروں پر اعتماد رکھا۔اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ اس اعتماد کا حق ادا کرے۔ صرف اعلانات سے نہیں، عمل سے۔