کینیڈا کے یونیورسٹی ٹیچرز امریکا کا غیرضروری سفر نہ کریں، ایڈوائزری جاری
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
کینیڈا کی جامعات کے اساتذہ کی ایک تنظیم نے اپنے ممبران کو غیرضروری طور پر امریکا کا سفر نہ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
‘کینیڈین ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی ٹیچرز’ نے کہا ہے کہ امریکا میں بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر نئی سفری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ وہ ٹیچرز جن کے ممالک کے امریکا سے سیاسی کشیدگی چل رہی ہے یا جن اساتذہ نے ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق منفی رائے کا اظہار کیا ہے انہیں امریکا کا غیرضروری دورہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہدایات میں کہا گیا ہے کہ ان اساتذہ کو بھی امریکا جاتے ہوئے محتاط ہونا چاہیے جن کا ریسرچ ٹرمپ انتظامیہ کے کسی موقف کے خلاف جاسکتا ہے، اساتذہ کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ امریکا میں داخل ہوتے وقت اس بارے میں محتاط رہیں کہ ان کی الیکٹرانک ڈیوائسز پر کہیں ایسا ڈیٹا تو موجود نہیں جو ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سے قبل کینیڈا نے بھی اپنے شہریوں کے لیے امریکا جانے سے متعلق ایڈوائزری جاری کردی تھی جس میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ بعض صورتوں میں وہاں ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد مارچ کے مہینے میں کینیڈا سے امریکا جانے والے مسافروں کی تعداد میں 32 فیصد کمی سامنے آئی۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال مارچ کے مقابلے میں اس سال اسی مہینے کینیڈا سے امریکا جانے والے شہریوں کی تعداد میں 8 لاکھ کمی ریکارڈ کی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
پناہ گزینوں کی روک تھام کے لیے یورپی یونین نے 7 ”محفوظ“ممالک کی فہرست جاری کردی
برسلز(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )یورپی یونین نے 7 ”محفوظ“ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس کا مقصد تارکین وطن کی واپسی میں تیزی لانا اور ان ممالک کے شہریوں کے لیے بلاک میں پناہ حاصل کرنے کا عمل مشکل بنانا ہے. فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق اس فہرست میں کوسوو، بنگلہ دیش، کولمبیا، مصر، بھارت، مراکش اور تیونس شامل ہیں تاہم یورپی یونین کے لیے ضروری ہے کہ اس اقدام کے نفاذ سے قبل بلاک کی پارلیمنٹ اور ارکان کی منظوری لی جائے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننے والے اس اقدام سے یورپی یونین کی حکومتوں کو ان ممالک کے شہریوں کی جانب سے دائر کی جانے والی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر تیزی سے کارروائی کرنے کا موقع ملے گا.(جاری ہے)
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرین میگنس برنر کا کہنا ہے کہ بہت سے رکن ممالک کو پناہ کی درخواستوں کے ایک بڑے بیک لاگ کا سامنا ہے لہذا ہم سیاسی پناہ کے فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں یہ بہت ضروری ہے برسلز پر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے اور ملک بدری کو آسان بنانے کے لیے دباﺅہے کیوں کہ ہجرت کے بارے میں رائے عامہ میں تلخی کے بعد کئی ممالک میں سخت دائیں بازو کے انتخابی فوائد کو ہوا ملی ہے. یورپی کمیشن نے کہا کہ یورپی یونین کے امیدوار ممالک بھی اصولی طور پر محفوظ ممالک کے طور پر نامزد ہونے کے معیار پر پورا اتریں گے لیکن اس میں استثنات بھی رکھے گئے ہیں بشمول جب وہ کسی تنازع کی زد میں آتے ہیں مثال کے طور پر یوکرین کو فہرست سے خارج کر دیا جائے گا یورپی یونین نے پہلے ہی 2015 میں اسی طرح کی فہرست پیش کی تھی لیکن رکنیت کے لیے ایک اور امیدوار ترکی کو شامل کرنے یا نا کرنے کے بارے میں گرما گرم بحث کی وجہ سے اس منصوبے کو ترک کردیا گیا تھا. کمیشن نے کہا کہ شائع ہونے والی فہرست کو وقت کے ساتھ توسیع یا اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اور یہ ان ممالک کو دیکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے جہاں سے اس وقت درخواست دہندگان کی ایک بڑی تعداد آتی ہے کئی رکن ممالک پہلے ہی ان ممالک کو نامزد کر چکے ہیں جنہیں وہ پناہ کے حوالے سے ”محفوظ“ سمجھتے ہیں مثال کے طور پر فرانس کی فہرست میں منگولیا، سربیا اور کیپ ورڈے شامل ہیں یورپی یونین کی کوششوں کا مقصد قوانین کو ہم آہنگ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تمام ارکان کے پاس ایک ہی بیس لائن ہے ریاستیں انفرادی طور پر ممالک کو یورپی یونین کی فہرست میں شامل کر سکتی ہیں لیکن اس میں سے کٹوتی نہیں کر سکتیں. کمیشن نے کہا کہ سیاسی پناہ کے مقدمات کا انفرادی طور پر جائزہ لینا ہوگا اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ موجودہ حفاظتی اقدامات برقرار رہیں اور پناہ کے متلاشی افراد کو یکسر مسترد نہ کیا جائے اس منصوبے کو نافذ العمل ہونے سے پہلے یورپی پارلیمنٹ اور رکن ممالک کی جانب سے منظور کیا جانا ضروری ہے لیکن اسے پہلے ہی سول سوسائٹی کے گروپوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے اور کچھ گروپوں نے تیونس اور مصر جیسے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ والے ممالک کو اس میں شامل کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے یورپی کمیشن نے کہا کہ تیونس نے سیاسی شخصیات، وکلا، ججوں اور صحافیوں کو حراست میں لیا جب کہ مصر میں انسانی حقوق اور حزب اختلاف کے کارکنوں کو من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر آبادی کو ظلم و ستم یا سنگین نقصان کے حقیقی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا . یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق 2023 میں تقریباً 10 سال کی بلند ترین سطح کے بعد گزشتہ سال یورپی یونین میں غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں کی نشاندہی 38 فیصد کم ہو کر 2 لاکھ 39 ہزار رہ گئی تاہم اٹلی، ڈنمارک اور نیدرلینڈز کی قیادت میں یورپی یونین کے راہنماﺅں نے اکتوبر میں مطالبہ کیا تھا کہ مہاجرین کی واپسی میں اضافے اور رفتار بڑھانے کے لیے فوری طور پر نئی قانون سازی کی جائے اور کمیشن کو غیر قانونی تارکین وطن سے نمٹنے کے لیے جدید طریقوں کا جائزہ لینا چاہیے یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یورپی یونین چھوڑنے کا حکم دینے والے 20 فیصد سے بھی کم افراد اپنے آبائی ملک واپس جا رہے ہیں.