امریکی فیڈرل جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو 5لاکھ لاطینی شہریوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے سے روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
بوسٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اپریل ۔2025 )امریکا کے فیڈرل جج نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو وینزویلا، کیوبا، نکاراگوا اور ہیٹی سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن کی قانونی حیثیت فوری طور پر منسوخ کرنے سے روک دیا ہے نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بوسٹن کے فیڈرل جج اندرا تالوانی کا یہ فیصلہ ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ملک بدری، خاص طور پر لاطینی امریکیوں کو نشانہ بنانے کے تیزی سے دباﺅ کے خلاف تازہ ترین حکم ہے.
(جاری ہے)
مارچ میں امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ کیوبا، ہیٹی، نکارا گوا اور وینزویلا کے تقریباً 5 لاکھ 32 ہزار شہریوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے جو اکتوبر 2022 میں سابق صدر جو بائیڈن کی جانب سے شروع کیے گئے ”پیرول‘ ‘پروگرام کے تحت امریکا آئے تھے فیڈرل جج اندرا تالوانی نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ عدالت کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے شہریوں کے لیے پیرول کے خاتمے پر روک لگاتے ہوئے ہنگامی ریلیف فراہم کرتی ہے. پیرول پروگرام کے تحت ان 4 ممالک سے ماہانہ 30 ہزار تارکین وطن کو 2 سال کے لیے امریکا میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی اپنے حکم میں خاتون جج نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن قانون کی غلط تشریح پر عمل کیا ہے جس کے تحت غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے غیر ملکی شہریوں کو فوری طور پر ہٹایا گیا لیکن ان لوگوں پر نہیں جو ملک میں رہنے کے مجاز ہیں ان میں پیرول پروگرام کے ذریعے آنے والے افراد شامل ہیں. صدر ٹرمپ کی جانب سے ان تارکین وطن کو 24 اپریل سے قانونی تحفظ سے محروم کر دیا جائے گا جس کے صرف 30 دن بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے اپنا حکم فیڈرل رجسٹر میں شائع کیا تھا. غیر قانونی امیگریشن کے خلاف انتخابی مہم چلانے کے بعد ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت میں لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے دیگر اقدامات کے علاوہ انہوں نے وینز ویلا کے ایک گینگ کے سیکڑوں مبینہ ارکان کو ایل سلواڈور بھیجنے کے لیے جنگ کے دوران نایاب قانون سازی کا استعمال کیا، جس کے تحت تارکین وطن کو قید کیا جارہا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تارکین وطن کو فیڈرل جج کے تحت
پڑھیں:
ہارورڈ یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار
امریکا کی صف اول کی ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو خط میں یہ بھی کہا تھا کہ طلبہ اور فیکلٹی کے اختیارات کم کیے جائیں۔
انتظامیہ نے خط میں لکھا کہ بیرونِ ملک سے آئے طلبہ کی خلاف ورزیوں کو فوراً وفاقی حکام کو رپورٹ کیا جائے اور ہر تعلیمی شعبے پر نظر رکھنے کے لیے کسی بیرونی ادارے یا شخص کی خدمات حاصل کی جائیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر نے مطالبات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں کہ نجی یونیورسٹیاں کیا پڑھائیں، کس پر تحقیق کریں اور کس کو داخلہ یا ملازمت دیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مارچ میں ہارورڈ کے 256 ملین ڈالر کے وفاقی اور 8.7 ارب ڈالر گرانٹ وعدوں کا جائزہ لینے کا کہہ چکی ہے، کیونکہ یونیورسٹی نے یہود مخالف رویے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
Post Views: 4