پہلی مرتبہ آلیار منظر عام پر، شاہین آفریدی کی بیٹے کے ہمراہ تصاویر وائرل
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ 10 میں لاہور قلندرز نے گزشتہ روز کراچی کنگزکو 65 رنز سے شکست دے دی۔
میچ کے بعد اسٹیڈیم سے شاہین شاہ آفریدی کی بیٹے آلیار اور اہلیہ کے ہمراہ اسٹیڈیم سے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔
وائرل تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شاہین آفریدی نے اپنے بیٹے آلیار کو گود میں اٹھایا ہوا ہے جس میں ان کا چہرہ بھی واضح ہے۔
Shaheen Afridi with his son Aliyar after last night's match.
— Salman (@SalmanAsif2007) April 16, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ میچ کے بعد عالیار آفریدی کے بابا شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ دل کو چھو لینے والے پیارے لمحات۔
Adorable Aliyar Afridi post match moments with baba shaheen shah Afridi. ♥️#ShaheenShahAfridi #PSL2025 pic.twitter.com/z7fBINboPv
— ????????????ã???? (@i_ifraa) April 16, 2025
واضح رہے کہ لاہور قلندرز نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 201 رنز اسکور کیے، جبکہ جواب میں کراچی کنگز کی ٹیم 136 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ لاہور قلندرز کی جانب سے فخر زمان نے 76 رنز کی نمایاں اننگز کھیلی جبکہ ڈیرل مچل نے 75 رنز اسکور کیے۔
یاد رہے کہ شاہین شاہ آفریدی اور انشا آفریدی نے ستمبر 2023 میں شادی کی تھی اور اگست 2024 میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انشا آفریدی پی ایس ایل شاہد آفریدی شاہین آفریدی شاہین آفریدی بیٹا عالیارذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ایس ایل شاہد ا فریدی شاہین ا فریدی شاہین ا فریدی بیٹا عالیار شاہین ا فریدی
پڑھیں:
ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا پس منظر، طاقت یا مجبوری؟
اسلام ٹائمز: اب مذاکرات ایران کے لیے کمزوری نہیں بلکہ اپنی شرائط منوانے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایران نہ صرف عسکری طور پر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں ایک نظریاتی بلاک قائم کر دیا ہے جو امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ "شیطانِ اکبر" کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے صرف ایک ملک نہیں، ایک مضبوط اور باعقیدہ مزاحمتی بلاک کھڑا ہے۔ ایران مذاکرات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اب امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اس لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایران کو شکست نہیں دے سکا۔ تحریر: سیدہ نقوی
دنیا کی سیاسی بساط پر جب بھی طاقت کے توازن میں تبدیلی آتی ہے، اس کے اثرات نہ صرف سفارتی تعلقات پر بلکہ عالمی بیانیے پر بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات اسی تغیر پذیر عالمی توازن کا مظہر ہیں۔ یہ مذاکرات دو بنیادی سوالات کو جنم دیتے ہیں:
1۔ امریکہ نے "محورِ شر" سے مذاکرات کیوں قبول کئے؟
2۔ ایران نے "شیطانِ اکبر" سے مذاکرات کیوں کئے؟
امریکہ اور محورِ شر: شکست کے اعتراف سے مذاکرات تک
وہی امریکہ جو کبھی غرور سے "محورِ شر" کا نعرہ لگا کر ایران، شمالی کوریا اور دیگر اقوام کو دھمکاتا تھا، آج انہی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلی کسی اخلاقی یا اصولی پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ ناکامیوں کے ایک طویل سلسلے کا انجام ہے۔ پابندیاں، اقتصادی جنگیں، میڈیا پروپیگنڈا، حتیٰ کہ ٹارگٹ کلنگز بھی امریکہ کو اس کے مقاصد میں کامیاب نہ کر سکیں۔ ایران نہ صرف قائم رہا بلکہ اس نے اپنے دفاعی، ایٹمی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کو مزید مستحکم کرلیا۔ شمالی کوریا نے کھلے عام امریکہ کو چیلنج کیا اور ایٹمی قوت حاصل کی اور امریکہ خاموشی سے تماشائی بن گیا۔ عراق میں شکست، افغانستان سے ذلت آمیز انخلا، یوکرین میں الجھن اور امریکہ کی داخلی معاشی و سیاسی ابتری نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اب دھمکیوں کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُن اقوام کو تسلیم کر لیا ہے، جنہیں وہ کبھی ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ مذاکرات دراصل طاقت کے اعتراف ہیں، نہ کہ کسی امریکی احسان کا نتیجہ۔ دنیا کا توازن بدل چکا ہے، اب امریکہ تنہا سپر پاور نہیں رہا۔ چین، روس اور ایران کی قیادت میں ابھرنے والا مزاحمتی بلاک نئی عالمی حقیقت بن چکا ہے جو نہ دھمکیوں سے ڈرتا ہے، نہ امداد پر جیتا ہے۔ امریکہ نے "محورِ شر" کا بیانیہ مجبوری میں چھوڑا اور انہی اقوام کے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھا جنہیں وہ ختم کرنا چاہتا تھا۔ کیا یہ امریکہ کی فتح ہے؟ یا پھر اس کی عالمی ناکامیوں کا کھلا اعتراف؟
ایران اور شیطانِ اکبر: مزاحمت سے مذاکرات تک
جہاں امریکہ کی جانب سے مذاکرات کا فیصلہ شکست کا مظہر ہے، وہیں ایران کا مذاکرات میں شامل ہونا ایک حکمتِ عملی کا حصہ ہے، نہ کہ کسی دباؤ کا نتیجہ۔ ایران نے چالیس سالہ پابندیوں، بین الاقوامی دباؤ، پراکسی جنگوں اور ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود اپنی خودمختاری برقرار رکھی۔ اس نے نہ صرف اپنی بقاء کو یقینی بنایا بلکہ لبنان، شام، عراق اور یمن میں اپنے اتحادیوں کی حمایت جاری رکھی اور ایک منظم مزاحمتی نظام تشکیل دیا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی اور آج وہ ایٹمی دہلیز کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امریکہ کے لیے ایران کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
اب مذاکرات ایران کے لیے کمزوری نہیں بلکہ اپنی شرائط منوانے کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایران نہ صرف عسکری طور پر مستحکم ہوا ہے بلکہ اس نے خطے میں ایک نظریاتی بلاک قائم کر دیا ہے جو امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ "شیطانِ اکبر" کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے صرف ایک ملک نہیں، ایک مضبوط اور باعقیدہ مزاحمتی بلاک کھڑا ہے۔ ایران مذاکرات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اب امریکہ سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اس لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے کیونکہ وہ ایران کو شکست نہیں دے سکا۔
ایران کو نظرانداز کرنے کا مطلب مشرقِ وسطیٰ میں مزید پسپائی ہے اور یہ امریکہ اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات درحقیقت طاقت کے نئے عالمی توازن کی ایک علامت ہیں۔ امریکہ کا جھکاؤ مجبوری ہے جبکہ ایران کی شرکت تدبیر۔ جنہیں کبھی "محورِ شر" کہا گیا، وہ آج عالمی پالیسیوں کے تعین میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور جو کبھی "شیطانِ اکبر" کہلاتا تھا، وہ آج مزاحمتی بلاک کے سامنے شرائط سننے پر مجبور ہے۔