Daily Ausaf:
2025-04-16@15:24:30 GMT

آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیو ستہ)
ہائی کورٹ تک بات گئی اور ہائی کورٹ نے سزائے موت سنا دی، لیکن پوری مغربی لابیاں، وائس آف جرمنی، وائس آف امریکہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، عاصمہ جہانگیر یہ سارے متحرک ہو گئے کہ یہ زیادتی ہے، اور ٹائٹل آزادی رائے اور انسانی حقوق کا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا اور لابی ان کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس دوران اسی کشمکش میں ان میں سے منظور مسیح قتل بھی ہو گیا، لیکن سلامت مسیح اور رحمت مسیح دو نوجوان لڑکے حراست میں تھے۔ کیس ابھی چل رہا تھا کہ یورپی یونین نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان کو پاکستان سے باہر نکالنا ہے۔ صدر فاروق لغاری صاحب کا دور تھا، جرمنی کے وائس چانسلر یہاں آئے۔ بظاہر ایجنڈا اور تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ میں ان لڑکوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ رات کے وقت ہائی کورٹ کے جج کو بلایا گیا، ان لڑکوں کی ضمانت منظور کروائی گئی، رات ہی جیل سے رہا کروا کر جرمنی حکومت کے خرچے پر ان کو جرمنی بھجوا دیا گیا اور اس وقت وہ جرمن حکومت کی نگرانی میں زندگی گزار رہے ہیں اور ٹائٹل وہی ہے آزادئ رائے اور انسانی حقوق۔
یہ چار کیس تو میرے سامنے کے ہیں۔ رتا دہتڑ کیس میں تو میں نے خود گوجرانوالہ میں مجلسِ عمل بنائی تھی، میں اس کا سیکرٹری تھا۔ یہ واقعات میں نے اس لیے بتائے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ جب آزادئ رائے کی بات کرتے ہیں تو آزادی رائے میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔ اس پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آزادئ رائے تو ٹھیک ہے، ہم بھی اس کے قائل ہیں لیکن اس کی کچھ حدود ہیں۔ آزادی رائے کا یہ مطلب تو نہیں کہ جس آدمی کی جو مرضی میں آئے کسی کے خلاف کہہ دے۔
میں یہ بات عرض کیا کرتا ہوں کہ رائے اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ میرا مغرب سے ہمیشہ سوال ہوتا ہے کہ توہین کو رائے میں آپ نے کب سے شامل کر لیا ہے؟ توہین تو مغربی دنیا میں بھی جرم ہے۔ بائبل میں تو باپ کی توہین پر بھی قتل کی سزا ہے۔ کسی کی اہانت، استہزا اور توہین تو دنیا کے ہر قانون میں جرم ہوتی ہے، اسے جرم کی فہرست سے نکال کر آزادئ رائے میں کیسے شامل کر لیا تم نے؟ برمنگھم جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے، وہاں سلمان رشدی کے خلاف تحریک کے زمانے میں ایک سیمینار میں گفتگو کر رہا تھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مولوی صاحب! آپ یہ شور کیوں مچا رہے ہیں کہ اس کو یہ کرو وہ کرو۔ اگر آپ کے پاس دلیل ہے تو اس کی کتاب کا جواب لکھیں۔ اس نے کتاب لکھی ہے، تم بھی لکھ دو۔ میں نے وہیں اسٹیج پر کھڑے کہا کہ بیٹا! جواب دلیل کا ہوتا ہے، گالی کا جواب نہیں ہوتا۔
میں نے بات سمجھانے کے لیے اس کو مثال دی کہ بیٹا! میرے والد بڑے عالم ہیں، مصنف و محقق ہیں۔ اگر کوئی آدمی میرے پاس آ کر کہے کہ آپ کے والد صاحب نے فلاں کتاب میں یہ بات لکھی ہے، اس کا حوالہ صحیح نہیں دیا، یا حوالے سے استدلال صحیح نہیں کیا، یا فلاں بات انہوں نے دلیل کے خلاف لکھی ہے، تو میں اس کو جواب دوں گا اور میرا حق بنتا ہے کہ میں والد صاحب کا دفاع کروں۔ لیکن اگر خدانخواستہ کوئی آدمی میرے سامنے آ کر میرے والد کو گالی دے گا تو میں اس کو جواب دینے کے لیے لائبریری میں نہیں جاؤں گا، بلکہ الٹے ہاتھ کی اس کے منہ پر ماروں گا کہ بکواس بند کرو۔ دلیل کا جواب دلیل سے ہوتا ہے اور گالی کا جواب دلیل سے نہیں ہوتا۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ مغرب ہمارے ساتھ یہ دھاندلی کر رہا ہے کہ اس نے رائے اور توہین کو گڈمڈ کر دیا ہے، حالانکہ رائے اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا۔ دنیا میں ہمارے خلاف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مسلمان برداشت والے لوگ نہیں ہیں، بڑے جذباتی لوگ ہیں، اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ اس پر میں نے لکھا بھی ہے، لیکچر بھی دیے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اختلاف ہم نے ہمیشہ سنا ہے، برداشت کیا ہے، اس کا جواب دیا ہے، مباحثہ و مکالمہ کیا ہے، لیکن توہین نہ کبھی برداشت کی ہے، نہ کرتے ہیں اور نہ کریں گے۔
مستشرقین تین سو سال سے لگے ہوئے ہیں، یورپ کی یونیورسٹیوں میں اسلام پر اعتراض کی باتیں چل رہی ہیں، قرآن پاک کے احکام پر اعتراضات ہوتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر بہت سے اعتراضات ہوتے ہیں۔ ہم ان کا جواب دیتے آ رہے ہیں۔ اگر آپ یورپ کی یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے وہ مقالات، جن میں اسلام، قرآن اور آپؐ کی ذات گرامی سے اختلاف کیا گیا ہے، شمار کریں گے تو وہ سینکڑوں نہیں ہزاروں میں نکلیں گے۔ ہم نے ان کا جواب دیا ہے۔ دلیل کا جواب ہم دلیل سے دیتے آ رہے ہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہم اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ ہم نے اختلاف سنا بھی ہے، اس کو برداشت بھی کیا ہے، اس کا جواب بھی دیا ہے۔ لیکن توہین نہ برداشت کی ہے اور نہ کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں سے مثال کے طور پر ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں، اس پر کہ جہاں دلیل کی بات ہوئی ہے تو ہم نے دلیل سے جواب دیا ہے اور جب توہین کے لہجے میں بات کی گئی تو ہم نے دلیل سے جواب نہیں دیا، بلکہ جس طرح دینا چاہیے تھا اسی طرح دیا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے معاصرین میں ایک ہندو پنڈت دیانند سرسوتی بڑے عالم، دانشور اور فلسفی آدمی تھے جو کہ ہندوؤں کے فرقہ آریہ سماج کے بانی تھے۔ جس طرح ہمارے ہاں دیوبندیوں کا بانی مولانا نانوتویؒ کو شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ ہے جو لاہور سے اردو میں چھپی ہے۔ اس کا ایک مستقل باب اسلام پر اعتراضات کا باب ہے۔ قرآن پاک پر، جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی پر اور اسلامی احکام پر تقریباً سو سے زیادہ اعتراضات کیے ہیں۔ عام فہم کامن سینس کے اعتراضات ہیں۔
مثال کے طور پر ایک اعتراض یہ لکھا ہے کہ مسلمان چودہ سو سال سے ابھی تک نماز میں کھڑے ہو کر یہی دعا مانگتے آ رہے ہیں ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کہ یا اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ابھی تک سیدھا راستہ مانگ ہی رہے ہیں، ان کو ملا نہیں ہے۔ جبکہ ہمیں سیدھا راستہ مل چکا ہے، اس لیے ان کے پیچھے نہ جاؤ بلکہ ہمارے پیچھے آؤ۔
ایک یہ اعتراض کیا کہ مسلمان بلاوجہ ہم ہندوؤں پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم پتھروں کی پوجا کرتے ہیں، بت پرست ہیں، صنم کے گرد طواف کرتے ہیں۔ فرق یہی ہے کہ ہم پتھر کی مورتی بنا لیتے ہیں اور مسلمانوں نے پتھر کا مکان (کعبہ) بنایا ہوا ہے، اس کے گرد گھومتے ہیں، اس کا طواف کرتے ہیں۔ تم بھی پتھر پوجتے ہو، ہم بھی پتھر پوجتے ہیں۔
اس قسم کے سو سے زیادہ اعتراضات و اشکالات اس نے کیے۔ ہم نے نہ اس کے قتل کا فتوٰی دیا، نہ اسے قتل کیا، بلکہ اس سے مناظرے کیے ہیں۔ حضرت نانوتویؒ سے اس کے مناظرے ہوئے ہیں، اور مولانا نانوتویؒ نے اس کی کتاب کے جواب میں رسالے لکھے ہیں۔ ’’قبلہ نما‘‘ اسی قبلہ کے اعتراض پر ہے، اور بھی کئی رسالے ہیں۔ اس کے حضرت نانوتویؒ سے مناظرے اور تحریری مقابلے ہوئے۔
پنڈت دیانند سرسوتی کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے۔ دوسرے مکاتب فکر کے علماء نے بھی اس کو جواب دیے۔ اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے ستیارتھ پرکاش کے جواب میں ’’حق پرکاش‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اور بریلوی بڑے عالم ہیں مولانا نعیم الدین مراد آبادیؒ، انہوں نے بھی اس کے جواب میں کتاب لکھی ہے۔ چونکہ پنڈت دیانند سرسوتی کی اس کتاب میں دلیل سے بات کی گئی ہے، عقلی اعتراضات ہیں، تو ہم نے کتابوں کی صورت میں اس کا جواب دیا ہے۔
جبکہ اسی لاہور سے ایک کتاب چھپی جس کا نام ’’رنگیلا رسول‘‘ ہے، راج پال نے لکھی تھی۔ اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے، اس کا جواب غازی علم الدین نے دیا تھا اور اسی کو دینا چاہیے تھا۔
(جار ی ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جواب دیا ہے اور چیز ہے اس کا جواب جواب دلیل کرتے ہیں رائے اور دلیل سے رہے ہیں یہ بات ہیں کہ

پڑھیں:

وفاقی حکومت کی ہائیکورٹ کے 5 ججز سمیت تمام درخواستیں خارج کرنیکی استدعا

اسلام آباد:

وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز سمیت تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کر دی۔

ججز سنیارٹی کیس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیا۔

وفاقی حکومت نے جواب میں لکھا ہے کہ ججز کا تبادلہ آئین کے مطابق کیا گیا ہے، ججز کو تبادلے کے بعد نیا حلف لینا ضروری نہیں۔ آرٹیکل 200 کے تحت تبادلے کا مطلب نئی تعیناتی نہیں ہوتا، ججز کا تبادلہ عارضی ہونے کی دلیل قابل قبول نہیں۔

جمع کروائے گئے جواب میں لکھا ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہوگا، ججز کے تبادلے سے عدلیہ میں شفافیت آئے گی نا کہ عدالتی آزادی متاثر ہوگی۔

وفاقی حکومت کے جواب کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو ججز تعینات کیے تین اسامیاں چھوڑ دیں، وزارت قانون نے 28 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلے کی سمری بھیجی، ججز تبادلے کے لیے صدر کا اختیار محدود جبکہ اصل اختیار چیف جسٹس پاکستان کا ہے، ججز تبادلے میں متعلقہ جج اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اصل بااختیار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ججز سنیارٹی کیس میں وفاقی حکومت نے جواب جمع کروا دیا
  • ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا
  • وفاقی حکومت نے ججز تبادلہ کیس میں تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی
  • وفاقی حکومت کی ہائیکورٹ کے 5 ججز سمیت تمام درخواستیں خارج کرنیکی استدعا
  • حکومت نے پی پی تحفظات پر کوئی مناسب جواب نہیں دیا، ذرائع
  • وفاقی حکومت کی کینال منصوبہ ختم کرنیکی پیشکش لیکن پیپلزپارٹی نے کیا جواب دیا؟ تہلکہ خیز دعویٰ 
  • پی ٹی آئی میں گروپنگ نہیں البتہ اختلاف رائے ضرور ہے، بیرسٹر گوہر
  • امریکی ٹیرف پر پریشان ، جواب کا ارادہ نہیں، وزیر خزانہ
  • امریکی ٹیرف پر پریشان ہیں مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: وزیر خزانہ