لاس اینجلس اولمپکس؛ کرکٹ کے مقابلے کِس میدان پر ہوں گے؟ نام سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی (او آئی سی) نے 2028 لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ کے مقابلوں کی میزبانی کیلئے گراؤنڈ کا اعلان کردیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کیلیفورنیا کے پومونا میں فیئر گراؤنڈز جسے سرکاری طور پر فیئر پلیکس کہا جاتا ہے، وہ تقریباً 500 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
1922 میں یہ لاس اینجلس کاؤنٹی کے کنسرٹس، شوز، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کا بھی مرکز رہا ہے۔
مزید پڑھیں: کرکٹ کی اولمپکس میں واپسی؛ 2028 میں 6 ٹیمیں حصہ لیں گی
لاس اینجلس اولمپکس 2028 کے سی ای او رینالڈ ہوور کا کہنا ہے کہ ہم نے دنیا سے ایک ناقابل یقین اولمپک گیمز منعقد کروانے کا وعدہ کیا ہے جس کیلئے بھرپور محنت کررہے ہیں۔
اس موقع پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے چیئرمین جے شاہ نے پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے اور اعلان کو اولمپکس میں کرکٹ کی واپسی کو اہم قدم قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیں: 128 سال بعد کرکٹ کی اولمپکس میں واپسی؛ پاکستان مشکل میں!
انہوں نے کہا کہ کرکٹ کی اولمپکس میں شمولیت کے بعد اُسے مزید مقبولیت ملے گی۔
قبل ازیں گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی (او آئی سی) نے 2028 میں لاس اینجلس میں شیڈول اولمپکس میں مینز اور ویمنز کی 6، 6 ٹیمیں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: لاس اینجلس اولمپکس 2028؛ منتظمین اسٹیڈیمز کی تلاش میں لگ گئے
لاس اینجلس اولمپکس 2028 میں میں کرکٹ ٹی20 فارمیٹ میں کھیلی جائے گی، جس میں مینز اور ویمنز کے ایونٹس میں 6، 6 ٹیمیں ہوں گی، جس کیلئے 90، 90 کھلاڑیوں کا کوٹہ الاٹ کیا جائے گا، ہر ٹیم 15، 15 کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی۔
یاد رہے کہ 128 سال کے طویل عرصے بعد اولمپکس میں کرکٹ کی واپسی ہورہی ہے، سال 1900 میں آخری بار پیرس گیمز میں کرکٹ کا کھیل کھیلا گیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاس اینجلس اولمپکس اولمپکس میں میں کرکٹ کرکٹ کی
پڑھیں:
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز
بھارت میں مسلم مخالف وقف بل کی منظوری کے بعد مغربی بنگال شدید احتجاج اور کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر بل کے خلاف سخت احتجاج کیا، جس کے دوران مرشد آباد میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 150 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
پرتشدد مظاہروں کو روکنے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
بی جے پی حکومت مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ جیوتیرمے سنگھ مہتو نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ متنازع قانون فورسز کو بغیر وارنٹ گرفتاری، تلاشی اور فائرنگ جیسے غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے۔
“کالا قانون” قرار دیے جانے والے اے ایف ایس پی اے کے اطلاق سے ریاست میں مزید کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ناقدین نے اس اقدام کو بی جے پی کی جانب سے مغربی بنگال کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر ان کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا چاہتی ہے۔ کیا مذہبی شناخت بھارت میں جرم بن چکی ہے؟ کیا مغربی بنگال میں بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں؟ یہ سوالات اب بھارت کے جمہوری چہرے پر سنگین دھبے بن کر ابھر رہے ہیں۔