بھولا ہوا ستارہ: ظہور احمد راجہ کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
ظہور احمد راجہ، ایک ایسا نام جو کبھی ہندوستانی اور پاکستانی سنیما کی دنیا میں گونجتا تھا، مگر رفتہ رفتہ دھندلا گیا ہے۔ تاہم فلم انڈسٹری میں ان کی خدمات بے مثال رہیں۔
وہ ایک اداکار، ہدایت کار، گلوکار اور پروڈکشن ہیڈ تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ فوج میں جائیں لیکن وہ بمبئی فلم انڈسٹری کی طرف بھاگے۔ وہ نہ صرف راجہ عباسی تھے، بلکہ بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے راجہ جانی تھے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمایبٹ آباد ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں لورہ جو اب تحصیل ہے، میں پیدا ہونے والے ظہور احمد راجہ عباسی قبیلہ سے تعلق رکھنے تھے۔ یہ قبیلہ آج بھی بےحد مقبول ہے۔ ان کے والد پرانے بنی محلہ راولپنڈی میں ایک پولیس انسپکٹر تھے، وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ہندوستان کے دہرہ دون میں فوج کی تعلیم حاصل کرے۔ تاہم نوجوان ظہور کی دوسری خواہشات تھیں۔ وہ فلموں میں قسمت آزمانے کے لیے بھاگ کر بمبئی (ممبئی) چلے گئے۔
مشہور سوشل ورکر جواد اللہ کے مطابق اپنے والد کے گھر سے فرار ہونے سے پہلے ظہور راولپنڈی کے مشہور گورڈن کالج کے طالب علم تھے، جہاں انہیں ایک مقبول ڈرامہ اداکار کے طور پر پہچان ملی۔
ایک کثیر جہتی کیریئرظہور احمد راجہ کی فنون لطیفہ سے محبت نے انہیں مختلف تخلیقی راستے تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ وہ فلم انڈسٹری میں ایک ہمہ جہتی شخصیت بن گئے، جس نے ہندوستانی اور پاکستانی سنیما پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کے قابل ذکر کاموں میں شامل ہیں:
اداکاریانہوں نے مختلف فلموں میں اداکاری کی، اکثر ولن کے کردار ادا کیے جو ایک اداکار کے طور پر ان کی استعداد کو ظاہر کرتے تھے۔ ان کی چند قابل ذکر فلموں میں شامل ہیں:
انمول گھری (1946)، خونی کتار (1931)، فریبی ڈاکو (1931)، اسٹیٹ ایکسپریس (1938) اور چمڑے کا چہرہ عرف فرزند وطن (1939)شامل ہیں۔
گلوکاری
راجہ کی گلوکاری کی صلاحیتوں کو ان کی فلموں میں بھی نمایاں کیا گیا، جس سے ان کی فنی حد کو مزید دکھایا گیا۔
فلم سازیانہوں نے فلم سازی کے مختلف پہلوؤں پر نت نئے طریقے آزمائے، جس سے انڈسٹری پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ بطور فلمساز ان کی چند قابل ذکر فلموں میں شامل ہیں:
جہاد (1950) اور خیبر میل شامل ہیں۔
پروڈکشن ہاؤس کا مالکراجہ نے فلم انڈسٹری میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرتے ہوئے اور آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہوئے اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا قائم کیا۔ تاہم اس کی مزید تفصیلات نہیں مل سکیں ۔
ذاتی زندگیبمبئی میں راجہ نے خوبصورت اداکارہ رادھا رانی سے شادی کی۔ تاہم، پاکستان کے قیام کے بعد وہ ہندوستان چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے، جب کہ ان کی اہلیہ نے ہندوستان میں رہنے کا انتخاب کیا۔
راجہ کو کراچی، لاہور اور ملتان میں جائیدادوں کی پیشکش کی گئی، لیکن انہوں نے ان کی پرواہ نہیں کی، اور بعد میں ان کے بھتیجے افتخار عباسی کے مطابق حکومت نے الاٹمنٹ منسوخ کر دی۔
راجہ نے بعد میں لاہور میں مینا شوری سے شادی کی، لیکن یہ شادی چند ماہ بعد ہی ختم ہوگئی۔ اس نے فن لینڈ کی ایک خاتون اور بعد میں انگلینڈ کی ایک خاتون سے شادی بھی کی، جن سے اس کے دو بیٹے تھے، جو انگلینڈ میں ہی رہ رہے ہیں۔
افتخار عباسی کے مطابق راجہ اکثر لندن پر واقع اپنی رہائش گاہ سے ان کی فیملی سے ملنےآ جاتے تھے۔ مگر بعد میں جب وہ اپنے انگریز فیملی کے ساتھ رمز کیٹ رہنے لگے تو رابطے منقطع ہو گئے۔ ایک اور بھتیجے پپو جمیل نے انکشاف کیا کہ راجہ کا انتقال 1993 میں لندن کے اسپتال میں ہوا، مگر اس کی خبر بہت دیر سے ان کے عزیزوں کو ملی۔ پپو کے مطابق آخری وقت وہ اپنی برطانیہ والی فیملی کے ساتھ رہے۔
میراثظہور احمد راجہ کا شاندار سفر خواہشمند فنکاروں کے لیے ایک تحریک کا کام کرتا ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی سنیما میں ان کی شراکتیں منائی جاتی رہیں، اور ان کی میراث خطے کے بھرپور ثقافتی ورثے کا ایک لازمی حصہ بنی ہوئی ہے۔ ان کے انتقال کے باوجود اس کا کام سامعین کو محظوظ اور متاثر کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کی میراث آنے والی نسلوں تک برقرار رہے۔
روزنامہ دی نیوز کے ممتاز صحافی سید کوثر نقوی کا کہنا ہے کہ ہم اپنی اہم شخصیات کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ تاریخی سیاسی سماجی مذہبی تلاش کریں اور کم از کم کچھ سڑکوں یا پلوں کو ان کے ناموں سے منسوب کریں، تاکہ نئی نسل کو تاریخی لوگوں کا پتہ چل سکے۔
سید کوثر نقوی نے تحصیل میئر کو مشورہ دیا کہ وہ کسی ایک گلی یا کسی عمارت یا پل کا نام راجہ ظہور عباسی کے نام پر رکھیں۔ تحصیل میئر لورہ افتخار عباسی کا کہنا ہے کہ لورہ تاریخ کے سچے، موتیوں سے بھرا پڑا ہے۔
انہوں نے تمام پرانی تاریخی شخصیات کی تلاش کے لیے مقامی لوگوں کی ایک کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا اور ان کی تفصیلات اکٹھی کر سکیں، تاکہ تحصیل کی کچھ عمارتیں یا سڑکیں ان کے ناموں سے رکھ سکیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ظہور احمد راجہ فلم انڈسٹری فلموں میں کے مطابق شامل ہیں انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
عباسی شہید اسپتال کے ہاؤس آفیسرز کا تنخواہوں میں اضافے کیلیے ڈائریکٹر آفس کا گھیراؤ
کراچی کے عباسی شہید اسپتال میں ہاؤس آفیسرز نے تنخواہوں میں اضافے کیلیے احتجاج کرتے ہوئے ڈائریکٹر آفس کا گھیراؤ کرلیا۔
کراچی کے عباسی شہید اسپتال میں ہاؤس آفیسرز نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ڈائریکٹر آفس کا گھیراؤ کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا۔ احتجاج میں خواتین ہاؤس آفیسرز کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی ہاؤس آفیسرز کا کہنا تھا کہ 5 سالہ تعلیم کے بعد انہیں 30 سے 45 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جب کہ دیگر سرکاری اسپتالوں میں 70 ہزار تک تنخواہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: میئر کراچی عباسی شہید اسپتال میں لفٹ حادثے کا شکار
اس موقع پر ایم ایس ڈاکٹر جاوید اقبال نے میڈیا سے گفتگو میں کہا 230 آفر لیٹرز جاری کیے گئے مگر صرف 9 ڈاکٹروں نے انہیں قبول کیا۔ مریضوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور پرانے ہاؤس آفیسرز پروموٹ ہو چکے ہیں۔
میئر کراچی نے یقین دہانی کرائی کہ جون تک تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔احتجاج کے بعد مظاہرین کو مئیر کراچی سے 2 روز میں ملاقات کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد وقتی طور پر احتجاج ختم کر دیا گیا۔