معیشت اور حکومتی پالیسیاں
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی ایک ماہ میں چار ارب ڈالر کی حد عبور کرنے پر ان سے تشکر اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ترسیلات زر میں اضافہ سمندر پار پاکستانیوں کی حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا عکاس ہے۔
بلاشبہ موجودہ حکومت کے معاشی استحکام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہو چکے، حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے تمام معاشی عشاریے مثبت پر فارم کر رہے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں ہے، افراط زر کی شرح بھی نیچے آچکی ہے۔ حکومتی پالیسیاں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی مثبت ریٹنگ پاکستان کی معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ مستحکم پرفارم کر رہی ہے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین بلین ڈالر سے بڑھ کر 12 بلین ڈالر ہو گئے ہیں۔ ان تمام پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ترسیلات زر کے ذریعے ملکی معیشت، غربت کے خاتمے اور پاکستان کی عالمی ساکھ کے مضبوط ستون ہیں۔ اقوام متحدہ کے محکمہ برائے اقتصادی و سماجی امور کے مطابق، دنیا بھر میں 272 ملین بیرونِ ملک مقیم افراد میں سے پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جس کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک روزگار، تعلیم یا کاروبار کی غرض سے مقیم ہے۔
ان پاکستانیوں کی خدمات اور قربانیاں ملک کی اقتصادی ترقی میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان ترسیلات زر نے نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دیا بلکہ لاکھوں خاندانوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ بھی بنیں۔ ترسیلات زر کا ایک بڑا حصہ ملک میں سرمایہ کاری کی صورت میں استعمال ہو رہا ہے۔ ’’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس‘‘ جیسی حکومتی اسکیموں نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ، حکومتی بانڈز اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کو آسان بنایا ہے۔
اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور بنیادی ڈھانچے، تعلیم، اور صحت جیسے شعبوں کو تقویت ملی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی نہ صرف اقتصادی بلکہ سفارتی میدان میں بھی پاکستان کی بھرپور نمایندگی کر رہے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 53 فیصد بیرونِ ملک پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ ان کی موجودگی میزبان ممالک میں پاکستان کی شبیہ کو بہتر بنانے کا باعث بنتی ہے۔ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے مختلف مواقع پر امریکی کانگریس سے رابطے کیے، جن میں پاک امریکا تعلقات، مسئلہ کشمیر اور انسانی حقوق کے معاملات شامل تھے۔
برطانیہ میں بھی پاکستانی کمیونٹی نے کئی ایسے اقدامات کیے جن سے دوطرفہ تعلقات کو فروغ ملا۔ آسٹریلیا میں مقیم پاکستانیوں نے تعلیم کے شعبے میں سرگرمی دکھاتے ہوئے پاکستانی طلباء کے لیے مزید مواقع کی فراہمی کے لیے مؤثر مہمات چلائیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی، معاشی، اور سماجی روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ کمیونٹی نہ صرف میزبان ممالک میں پاکستانی ثقافت اور وقار کی نمایندگی کرتی ہے بلکہ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی پیش پیش ہے۔ ترسیلات زر کا ایک فوری اور بڑا فائدہ ملک میں غربت میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ مالی وسائل اندرونِ ملک معیشت میں رواں دواں رہنے والے خون کی مانند ہیں، جو پسماندہ طبقے کو سہارا دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر حکومت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو مزید سہولیات، شفاف نظام اور محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے، تو یہ کمیونٹی پاکستان کو اقتصادی خود انحصاری کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
ملک کی برآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور گزشتہ چھ ماہ کے دوران برآمدات میں 11 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ خوش آیند ہے اور اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے سالوں میں ملکی معیشت قدرے مستحکم ہوسکے گی۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چھ ماہ میں ملک کی مجموعی برآمدات 16 ارب 63 کروڑ امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ دوسری جانب برآمدات میں اضافے کو بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کم قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معیشت کے استحکام کے لیے اس سے امید کی ایک کرن ضرور دکھائی دیتی ہے۔
رواں مالی سال میں یورپی ممالک کو پاکستانی برآمدات میں تقریباً چار ارب ڈالر کا بڑا اضافہ انتہائی خوش آیند ہے۔ برطانیہ، نیدر لینڈز، فرانس، جرمنی اور بیلجیم سمیت شمالی اور مشرقی یورپ پاکستانی مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی بنے ہوئے ہیں۔ بہتر معاشی پالیسیوں کی بدولت صنعتوں کی بحالی اور اقتصادی ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے اور اس کے لیے حکومت بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو فعال کرے اور انھیں برآمدات میں اضافے کے لیے ٹارگٹس سونپے جائیں۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی ایک سازگار معاشی تصویر پیش کرتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ گرتی ہوئی افراطِ زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں کمی اور ادائیگیوں کا مثبت توازن ہے۔ ملکی برآمدات میں اضافہ بنیادی طور پرخوراک اور ٹیکسٹائل کے شعبوں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ تیار ملبوسات، کپڑا اور چاول پاکستان کی بڑی برآمدات رہی ہیں، جس کے بعد چینی، تولیہ، فارماسیوٹیکل اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
پاکستان کی برآمدات میں اہم شعبہ آئی ٹی سیکٹر ہے جو ملک میں انٹرنیٹ چیلنجز کے باوجود مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں کی برآمدات میں اضافے کی اہم وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام ہے۔ جس کی وجہ سے اب پاکستانی آئی ٹی کمپنیاں اپنے منافع کا بڑا حصہ پاکستان منتقل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی کے مثبت کردار کے کے باعث برآمدات میں اضافہ اور معاشی ترقی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے اہم پیشرفت ہوئی ہے۔
ایس آئی ایف سی کے تعاون سے ریکوڈک منصوبہ 2028 تک فعال ہوگا، منصوبے میں 5.
پاکستان جب بھی ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو ہمارے معاشی اہداف بہتر ہو جاتے ہیں اور کچھ استحکام آتا ہے۔ لیکن اس کے فوری بعد معیشت میں عدم توازن آنا شروع ہو جاتا ہے خاص طور پر ادائیگیوں کے توازن کو لے کر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدی صنعت درآمدات پر انحصار کرتی ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے بڑھ جاتی ہیں اور ادائیگیوں میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ صنعتکاروں کا اعتماد بحال کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے موجودہ حکومت تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
حکومت معاشی پالیسیوں میں تسلسل پر یقین رکھتی ہے کیونکہ یہی استحکام سرمایہ کاروں کو اعتماد فراہم کرتا ہے۔ معاشی استحکام کے لیے حکومتی پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے اور کاروباری برادری کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے حکومت کی مثبت اور سرمایہ کار دوست پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار دلچسپی لے رہے ہیں۔ معیشت اپنے درست ٹریک پر واپس آ چکی ہے۔ اسی طرح اُڑان پاکستان ایک امید ہے لیکن ہمیں حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور ہماری معیشت میں بہتری کی بنیاد سستی توانائی کی فراہمی ہے۔
اس خطے کے مسائل ایک ہی صورت حل ہو سکتے ہیں، وہ یہ کہ وار انڈسٹری کے بجائے ٹریڈ، ٹرانسپورٹ اور کنیکٹیوٹی انرجی کی طرف چلا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو خطے میں جاری عسکریت پسندی، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی میں خود ہی کمی آجائے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملک مقیم پاکستانی مقیم پاکستانیوں کی برا مدات میں استحکام کے لیے سرمایہ کاری کے ایس ا ئی ایف سی پاکستانیوں کی پالیسیوں کی ملکی معیشت پاکستان کی ترسیلات زر میں اضافہ بلین ڈالر کی وجہ سے کی معیشت ہے اور رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
حکومت کی پالیسیاں کسان دشمن، پانی اور زمین پر اشرافیہ قابض ہے، ندیم افضل چن
حکومت کی پالیسیاں کسان دشمن، پانی اور زمین پر اشرافیہ قابض ہے، ندیم افضل چن WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )سیکریٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ ن لیگ دور میں پنجاب کے دریا خشک ہو گئے، یہ دریائے سندھ کو بھی متنازع بنانے پرلگے ہیں، ہمارے ڈیمز بھی ڈیڈ لیول پر ہیں، یہ کس شہرکا پانی لے کر چولستان کو آباد کریں گے، پانی لینے سے ہمارے شہرغیر آباد ہو جائیں گے، لاہور کی فوڈ باسکٹ پر بھی ہاسنگ اسکیمیں بن چکی، حکومت کی پالیسی کسان دشمن پالیسی ہیں، زمینوں کوغیرآباد کر کے زمین آباد نہ کی جائیں، عوام کی زمینیں غیرآباد کر کے اشرافیہ کی زمینیں آباد کی جارہی ہیں، ہم سمجھتیہیں کہ حکومت کی پالیسیاں غلط ہیں۔
سیکریٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی ندیم افضل چن نے گفتگو کرتے کہا کہ ن لیگ دورمیں پنجاب کے دریا خشک ہو گئے، یہ دریائے سندھ کو بھی متنازع بنانے پرلگے ہیں، ہمارے ڈیمزبھی ڈیڈ لیول پر ہیں۔ندیم افضل چن نے کہا کہ یہ کس شہر کا پانی لے کر چولستان کو آباد کریں گے، پانی لینے سے ہمارے شہر غیر آباد ہو جائیں گے، لاہورکی فوڈ باسکٹ پر بھی ہاسنگ اسکیمیں بن چکی، حکومت کی پالیسی کسان دشمن پالیسی ہیں۔
سیکریٹری اطلاعات پیپلز پارٹی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ زمینوں کوغیرآباد کر کے زمین آباد نہ کی جائیں، عوام کی زمینیں غیرآباد کر کے اشرافیہ کی زمینیں آباد کی جا رہی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں غلط ہیں۔ندیم افضل چن نے آج نیوز کے پروگرام میں کہا کہ اگر کوئی دبا ہے تو جواب حکومت ہی دے سکتی ہے، چھوٹے صوبوں کا پینے کا پانی بھی نہ ملنا ناانصافی ہے، عوام سستی بجلی، اچھا علاج اور اچھی تعلیم چاہتی ہے، اشرافیہ منرل واٹرپیتی ہے،عوام کونکلنے کا بھی میسرنہیں۔ انھوں نے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم نظام کو گرانا نہیں چاہتے، ن لیگ خود اس پر تلی ہے، نئے انتخابات مسائل کا حل نہیں، پہلے الیکشن پرعوام کے کھربوں روپے لگے ہوئے ہیں، ابھی انتخابات کروائے تو فارم 45،47 کا معاملہ اٹھ جائے گا، تمام جماعتوں کو آن بورڈ لے کر انتخابات کروائے جائیں۔