اسرائیلی ریاست، نفسیاتی بیماریوں کا شاخسانہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسرائیلی معاشرے کا گہرا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بائبل، تلمودی اور اساطیری حوالہ جات کس قدر اسرائیلی شخصیت، بالخصوص دائیں بازو کی انتہاپسند سوچ کے رویوں سے جُڑے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ صرف تشدد، جبر اور دہشتگردی کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ سب اب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی رویہ بن چکا ہے، جو اسرائیلی شخصیت کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کر گیا ہے۔ یہ کوئی وقتی یا مجبوری کے تحت اپنایا گیا طرزِ عمل نہیں بلکہ ایک داخلی رجحان ہے۔ تحریر: سیدہ نصرت نقوی
اسرائیلی ریاست کے وجود اور اس کی پالیسیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کا رویہ صرف سیاسی یا جغرافیائی مقاصد کے تابع نہیں بلکہ اس میں گہری نفسیاتی پیچیدگیاں کارفرما ہیں۔ صیہونی تحریک کی بنیاد خوف، عدم تحفظ، برتری کے خبط، اور تاریخی مظلومیت کے نفسیاتی ردعمل پر رکھی گئی تھی، جس نے اسے ایک جارحانہ اور خود پرست ریاست میں ڈھال دیا۔ یہودی معاشرے میں انتہا پسندی اور تشدد کے موضوع پر لکھنا صرف ایک علمی یا نفسیاتی کاوش نہیں بلکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو نفسیات کی حدود سے نکل کر اُن دنیاؤں میں داخل ہو جاتا ہے جہاں نظریاتی، نفسیاتی اور اساطیری عناصر آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔
اسرائیلی معاشرے کا گہرا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بائبل، تلمودی اور اساطیری حوالہ جات کس قدر اسرائیلی شخصیت، بالخصوص دائیں بازو کی انتہاپسند سوچ کے رویوں سے جُڑے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ صرف تشدد، جبر اور دہشتگردی کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ سب اب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی رویہ بن چکا ہے، جو اسرائیلی شخصیت کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کر گیا ہے۔ یہ کوئی وقتی یا مجبوری کے تحت اپنایا گیا طرزِ عمل نہیں بلکہ ایک داخلی رجحان ہے۔
جو کوئی بھی "اسرائیل" کو سمجھتا ہے، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہاں صرف غیر یہودیوں (یعنی "جینٹائلز") ہی کے لیے نہیں بلکہ بعض یہودیوں کے لیے بھی شدید نفرت اور تشدد کا رجحان موجود ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہودی تربیت اور سماجی ماحول کا فرد کی شخصیت پر گہرا اثر ہے، جو اُسے دشمنی اور عداوت کے جذبات سے بھر دیتا ہے۔ یہ جذبات بعد میں عملی تشدد کی صورت اختیار کرتے ہیں، جو اکثر فکری شدت پسندی اور عملی انحراف میں ظاہر ہوتے ہیں۔
چند روز قبل اسرائیلی معاشرے میں ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا، جس نے مختلف حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ شوشانہ استروک جو کہ انتہاپسند اسرائیلی وزیر برائے آبادکاری اوریت استروک کی بیٹی ہے، ایک ایسی خاتون جو فلسطینیوں کے خلاف اپنی شدید دشمنی اور انتہا پسندی کے لیے مشہور ہے نے انکشاف کیا کہ اُسے اپنے والدین نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور اس ظلم کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔
اوریت استروک جو کہ انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صہیونیت پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں، جس کی قیادت وزیر خزانہ بیتسلئیل سموتریچ کرتے ہیں، ان کا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا رجحان صرف مذہبی یا سیاسی نظریات کا نتیجہ نہیں لگتا بلکہ یہ ایک نفسیاتی بیماری کا عکاس محسوس ہوتا ہے، جو صرف فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ اُن کی اپنی بیٹی تک کے خلاف بھی ظاہر ہوا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا ذہنی بیماری اور نظریاتی انتہا پسندی کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاندانی، سماجی اور نفسیاتی حالات کسی فرد کو اس نہج پر لے جا سکتے ہیں کہ وہ ایسے گروہوں میں شامل ہوجائے جو انتہا پسند یا منفی نظریات کی ترویج کرتے ہیں۔ ایسے گروہ فرد کے رویے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ اثرات بعض اوقات لاشعوری طور پر بھی ظاہر ہوتے ہیں، یعنی فرد اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کی خواہش میں شدت اختیار کر لیتا ہے۔
اگرچہ یہ کہنا غلط اور خطرناک ہوگا کہ ہر انتہا پسند رویہ ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے لیکن ایک غیرجانبدار اور مکمل جائزہ ہمیں یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ انتہا پسندی نفسیاتی سطح پر کسی بیماری یا پیچیدگی سے بھی جڑی ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ذہنی مریضوں کی اکثریت کا انتہا پسندی یا شدت پسند سیاسی تحریکوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اسرائیلی ریاست اپنے گرد مسلسل خطرات کا حصار قائم رکھتی ہے اور یہ احساس اسے ہر اُس قوم، ملت یا فرد کے خلاف وحشیانہ ردعمل پر اکساتا ہے جو اس کے بیانیے سے اختلاف رکھتا ہو۔ فلسطینیوں کے خلاف غیرمعمولی تشدد، بچوں اور عورتوں تک پر بمباری، بستیوں کی تعمیر، اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں دراصل اس اجتماعی نفسیاتی عارضے کا مظہر ہیں جسے ریاستی تحفظ کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ رویہ "خوفزدہ جارح" (paranoid aggressor) کی نفسیاتی کیفیت سے مشابہ ہے، جہاں حملہ محض دفاع نہیں بلکہ تسلط اور استیصال کی نفسیاتی ضرورت بن چکا ہے۔
اسرائیل کی قیادت میں موجود کئی چہرے، جن کا مزاج مذہبی شدت پسندی، نسل پرستی اور تشدد سے لبریز ہے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ریاست صرف ایک سیاسی اکائی نہیں بلکہ اجتماعی نفسیاتی بیماریوں جیسے احساسِ برتری، تعصب، اور pathological narcissism کا شاخسانہ ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اسرائیلی ریاست ایک ایسا "ذہنی مریض" ہے جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کو گولی، بم اور خونریزی کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی ریاست اسرائیلی شخصیت نہیں بلکہ ایک انتہا پسندی نہیں بلکہ ا کا نتیجہ کرتے ہیں کے خلاف ہیں کہ اس بات اور اس
پڑھیں:
لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ زندہ تاریخ کا میوزیم ہے: وزیراعلیٰ مریم نواز
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن کے 25 رکنی وفد کی ملاقات ہوئی۔ ملاقاتی وفد میں تاجکستان، ازبکستان، ترکیہ، قازقستان، ترکمانستان، ایران، آذربائیجان اور پاکستان کے سی ایم او میں مستقل مندوب شامل تھے۔ وفد کی سربراہی ای سی او کے سیکرٹری جنرل اسد مجید خان نے کی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا وفد کی لاہور آمد پر پرتپاک خیر مقدم کیا گیااور وفد کے ارکان کو لاہور آمد پر خوش آمدید کہا۔سینئر منسٹر مریم اورنگ زیب نے ای سی او وفد کے شرکا کو تفصیلی بریفننگ دی۔ وزیراعلی مریم نواز شریف نے اس موقع پر لاہور کو ای سی او کیپٹل قرار دینے میں معاونت پر ترکمانستان کا شکریہ ادا کیا ۔ مریم نواز نے کہا کہ ای سی او کے معزز مہمانوں کی موجودگی ہمارے لیے باعثِ اعزاز ہے۔قدیم اور جدید ثقافت کے شہر لاہور سے محبت ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی ذاتی نگرانی میں لاہور کی ثقافتی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ زندہ تاریخ کا میوزیم ہے۔ لاہور کی گلیوں میں تہذیب کی خوشبو ہے، آثارقدیمہ ماضی کی عظمت کے گواہ ہیں۔لاہور کے لوگ پیار اور محبت کے پیکر ہیں،لاہوریوں کی میزبانی بے مثال ہے۔ لاہور کے باغات شاہی قلعے اور یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹس اس کی شان و شوکت کا ثبوت ہیں۔ لاہور نہ صرف تاریخ کا محافظ ہے بلکہ ذائقوں کا مرکز بھی ہے۔ پنجاب سیاحوں کی میزبانی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ٹورازم سیکٹر کو ایک نئی صنعت کے طور پرفروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ پنجاب حکومت نہ صرف لاہور بلکہ پورے صوبے میں سیاحتی مقامات کو اپ گریڈ کر رہی ہے۔ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔پنجاب کاروبار، ٹیکنالوجی اور سروسز کا ابھرتا ہوا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پنجاب میں زراعت، ٹیکنالوجی، ٹورازم، تعلیم اور انڈسٹری اور دیگر شعبوں میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ پنجاب میں فارن انوسٹر کے لیے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے زمین ہموار کی جا چکی ہے۔
اس موقع پر اسد مجید سیکرٹری جنرل ای سی او نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں 1992 میں پاکستان ای سی او میں شامل ہوا۔ وزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب،سیکرٹری جنرل ای سی او کا لاہور سے ہونا خوشگوار ہے۔ لاہور آکر خوشی ہوئی،شہر بے مثال ہے،شاندار استقبال اورپرتپاک خیر مقدم نہیں بھول سکتے۔ وفد کے شرکا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لاہور ثقافتی تنوع سے بھرپور ہے، دوبارہ آنے کی خواہش بھی ہے۔ ای سی او وفد نے لاہور کی خوبصورتی،ثقافتی بحالی،سیاحت کے فروغ کیلئے وزیراعلی مریم نوازشریف اوران کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔ وفد کے شرکاء نے وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کو شاندار خطاطی کا نمونہ اوردیگر یادگاری سوونیئر پیش کیےگئے۔