بھارت میں اقلیتوں پر حملہ آئین اور جمہوریت پر حملہ ہے، محمد یوسف تاریگامی
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
کشمیر اسمبلی کے رکن نے کہا کہ اگر وقف میں اصلاح کی ضرورت ہے تو اس کیلئے صرف مسلم ادارے کو ہی نشانہ کیوں بنایا گیا، کیا دیگر عقیدوں کے اداروں میں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سی پی آئی (ایم) کے سینیئر لیڈر اور رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے تمل ناڈو میں منعقدہ ایک کانگریس میں وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک قرارداد پاس کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں پر حملہ آئین اور جمہوریت پر حملہ ہے۔ ان کہنا ہے کہ ہمارا آئین ہر عقیدے کے لوگوں کو اپنے عقیدے کے استحکام کے لئے ادارے قائم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ موصوف لیڈر نے ان باتوں کا اظہار آج سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت کی جانب سے تمل ناڈو میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ملک بھر سے آئے وفود نے شرکت کی، اس کانگریس میں کئی قراردادیں پاس کیں جن میں وقف ترمیمی بل کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بل ایک قانون تھا جس میں موجودہ سرکار نے ایک بل لاکر تبدیلی کی اور اس کو پاس کیا گیا۔
محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ یہاں ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اپنے معاملات اور املاک کی دیکھ ریکھ کے لئے ٹرسٹ بنے ہیں اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کے بارے میں ہمار ایک سوال ہے، اگر اصلاح کی ضرورت ہے تو اس کے لئے صرف مسلم ادارے کو ہی نشانہ کیوں بنایا گیا، کیا دیگر عقیدوں کے اداروں میں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں اصلاح کا اختیار ان لوگوں کو ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں کسی دوسرے کو ان معاملات میں دخل دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قرارداد میں کہا کہ یہ دخل اندازی ہے اور اس کا مقصد ایک خاص عقیدے کے لوگوں کو نشانہ بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہر عقیدے کے لوگوں کو اپنے عقیدے کے استحکام کے لئے ادارے بنانے کا اختیار دیتا ہے، یہ (بل) مسلمانوں کے حقوق پر ایک آنچ ہے۔
محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ اقلیتوں پر حملہ آئین اور جمہوریت پر حملہ ہے۔ رکن اسمبلی نے کہا کہ ہم نے بجٹ اجلاس کے دوران اس پر بات کرنا چاہی جو نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ہمیں اسمبلی میں بات کرنے کے لئے بھجتے ہیں۔ عارضی ملازموں کی مستقلی پر بات کرتے ہوئے محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ مختلف محکموں میں کام کر رہے عارضی ملازموں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہو رہی ہے جبکہ ان سے کام لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سے کم سے کم اجرت دینے کے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن ان وعدوں کو عملی شکل نہیں دی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محمد یوسف تاریگامی انہوں نے کہا کہ اصلاح کی ضرورت میں اصلاح عقیدے کے لوگوں کو پر حملہ کے لئے
پڑھیں:
ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس، آئین میں تبادلے کیلئے 2سال کی مدت نہیں دی گئی، جج آئینی بینچ
ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس، آئین میں تبادلے کیلئے 2سال کی مدت نہیں دی گئی، جج آئینی بینچ WhatsAppFacebookTwitter 0 29 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ موجودہ آئین میں تو 2 سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس میں درخواست گزار پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل جاری رہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل بھی منیر اے ملک اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بینچ میں شامل تھے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا آپ نے جواب الجواب جمع کروا دیا ہے؟ منیر اے ملک نے کہا ابھی جواب جمع نہیں کرایا مگر جلد اپنے موکل کی ہدایات کے بعد جواب جمع کروا دیں گے۔منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کا اصل مطلب عارضی تبادلے ہیں، اس حوالے سے میں ماضی کے آئین سے اپنے دلائل شروع کروں گا، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ججز ٹرانسفر کی کوئی شق شامل نہیں تھی، 1956 کے آئین میں ججز کے ٹرانسفر کے حوالے سے شق شامل تھی۔
اس شق کے تحت صدر دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کر سکتا تھا، اس شق کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی یا مخصوص مدت کیلئے تھا، 1962 کے آئین کے مطابق بھی ججز کا ٹرانسفر مخصوص مدت کیلئے تھا، 1973 کے آئین میں ججز ٹرانسفر کیلئے آرٹیکل 202 تھا۔اس آرٹیکل کے مطابق بھی ججز کے ٹرانسفر کی مدت اور مراعات کا تعین صدر کرتا تھا۔منیر اے ملک نے کہا 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ججز ٹرانسفر کیلئے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی ہوگا، آرٹیکل 200 کی شق دو کے تحت ججز کا تبادلہ عارضی ہوسکتا ہے، چھبیسویں ترمیم میں آرٹیکل 200 کو نہیں چھیڑا گیا۔
انہوں نے استدلال کیا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت ٹرانسفر ہونے والے ججز کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے حلف لینا ہوگا، جج کے عہدہ سنھبالنے کے بعد حلف لینے کی شق میں بھی ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔منیر اے ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججز تبادلے کا اختیار دینے والے آرٹیکل 200 کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا، آرٹیکل 200 پر آئین کی کچھ دیگر شقوں کا بھی اثر ہے، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 2 اے اور آرٹیکل 175 اے سے ملا کر ہی دیکھا جائے گا، آرٹیکل 2 اے میں واضح ہے کہ عدلیہ آزاد ہوگی۔منیر اے ملک نے کہا 1976 میں آرٹیکل 200 میں نئی شق شامل کی گئی، شق کے مطابق ججز کا تبادلہ ایک سال کیلئے ہوتا تھا، 1985 میں ترمیم کرکے تبادلے کی مدت دو سال کر دی گئی۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت بھی تبادلہ متعلقہ جج کی رضامندی سے مشروط تھا، 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تبادلہ ججز کی رضامندی سے مشروط تھا، 1985 کی ترمیم میں جج کی رضامندی کو ختم کر دیا گیا، ایک شق یہ بھی شامل کی گئی کہ تبادلہ تسلیم نہ کرنے والا جج ریٹائر تصور ہوگا۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ججز کا تبادلہ عوامی مفاد میں ہی ممکن ہے، ثابت کرنا ہوگا کہ موجودہ تبادلے عوامی مفاد میں کیے گئے ہیں، کسی بھی جج کو سزا دینے کیلئے تبادلے نہیں کیے جا سکتے۔جسٹس شاہد بلال حسن نے استفسار کیا آپ کے مطابق تبادلہ عارضی نوعیت کا ہوتا ہے، عارضی نوعیت کے تبادلے کی مدت کتنی ہوگی؟ وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا آئینی تاریخ کے مطابق تبادلے کی مدت دو سال ہوگی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے موجودہ آئین میں تو دو سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوگا۔منیر ملک نے کہا ججز کی مرضی کے بغیر تبادلہ ہو تو دو سال کی مدت لاگو ہوگی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے یہ تشریح بھی ہو سکتی ہے کہ جج اپنی مرضی سے غیر معینہ مدت تک ٹرانسفر ہوسکتا ہے۔منیر ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر سے قبل پانچ ججز کی آسامیاں خالی تھیں، آرٹیکل 200 نے صدر مملکت کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ وہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تعیناتیاں کر سکیں، آئین اور رولز میں طے شدہ ہے کہ جج کی خالی آسامی کیلئے نامزدگی ممبر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔انہوں نے دلیل دی کہ آئین پاکستان نے ججز کی تعیناتی کیلئے پورا طریقہ کار طے کر رکھا ہے، مستقل جج کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، ایسے تو ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں پر کرنے کیلئے صدر ہی اختیار استعمال کرتے رہیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپکی دلیل یہ ہے کہ صدر مملکت کو مستقل جج کی تعیناتی کا اختیار ہی حاصل نہیں، آپ نے کہا مستقل جج کی تعیناتی کا طریقہ کار آرٹیکل 175 اے میں موجود ہے، پانچ رکنی آئینی بینچ میں موجود ججز نے مل کر طے کیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، ہم نے طے کیا ہے جب آپکے دلائل مکمل ہونگے تو سوالات و جوابات کا ایک سیشن ہوگا، عدالتی کاروائی کے اس سوال و جواب کے سیشن میں آپ جوابات دیجیے گا۔منیر اے ملک نے کہا جی ٹھیک ہے، بھارت میں بلاتفریق ججز کا ٹرانسفر ہونا روٹین ہے۔بعد ازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت بطور ریاست پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے، بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد گرفتار ،ڈی جی آئی ایس پی آرنے ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیئے بھارت بطور ریاست پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے، بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد گرفتار ،ڈی جی آئی ایس پی آرنے ثبوت دنیا... عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے بہنوں، پارٹی رہنمائوں کی ملاقات آج بھی نہ ہوسکی ضلعی انتظامیہ کی کارروائیاں ،ڈینگی ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر9افراد گرفتار بھارت کے خلاف ہم سب متحد ہیں، عمران خان کا جیل سے اہم پیغام تربت میں سیکیورٹی فورسز کا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، 3دہشت گرد ہلاک پہلگام فالس فلیگ کہانی، بھارتی میڈیا کے سوالات؟ مودی سرکاری خاموش ؟ کیوں ؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم