ٹرانسپورٹ کے شعبے کو جدید اور عوام دوست بنانے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، شرجیل میمن
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
سینئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے عوام کو سستی، ماحول دوست اور بااعتماد سفری سہولیات مہیا کی جائیں، سندھ کا ٹرانسپورٹ نظام ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی اور سہولت دونوں کو مدنظر رکھا جا رہا ہ اسلام ٹائمز۔ حکومت سندھ نے ناقص و غیر محفوظ کمرشل گاڑیوں کی رجسٹریشن منسوخی کا فیصلہ کرلیا جبکہ گرین لائن اور اورنج لائن کی گاڑیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آئندہ ہفتے نیا روٹ شروع کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے خواتین کے لیے پنک ای وی اسکوٹر اسکیم جلد شروع کرنے کی ہدایات کی گئی۔ ملازمت پیشہ اور طالبات درخواست گزاروں کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کا ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیر صدارت محکمہ ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ کا اجلاس ہوا جس میں سیکریٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن، ایم ڈی ایس ایم ٹی اے کمال دایو، پیپلز بس سروس کے پی ڈی صہیب شفیق اور دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں ٹرانسپورٹ کے مختلف منصوبوں پر پیش رفت اور روڈ سیفٹی سے متعلق حکومتی اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، اجلاس میں کمرشل گاڑیوں کے معائنے کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی ہدایات پر نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر کمرشل گاڑیوں کے معائنے کے لیے ایم وی آئی سینٹرز قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کے دوران شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ سندھ بھر میں کمرشل گاڑیوں کے معائنے کے لیے 10 ایم وی آئی سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، کراچی میں دو ایم وی آئی سینٹرز پہلے سے ہی فعال ہیں، مزید سینٹرز پر کام کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر ای وی آئی سینٹرز کے قیام سے گاڑیوں کی شہر میں داخلے سے قبل فٹنس یقینی ہوگی، کراچی میں تین مزید اور سندھ کے باقی اضلاع میں 5 ایم وی آئی سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم ٹرانسپورٹ کے شعبے کو جدید، محفوظ اور عوام دوست بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جون میں 34 نئی الیکٹرک بسیں اور 5 ڈبل ڈیکر بسیں کراچی پہنچیں گی، جبکہ مزید 100 بسیں بھی جون ہی میں پہنچ جائیں گی۔ شرجیل انعام میمن نے ابتدائی مرحلے میں 500 الیکٹرک ٹیکسیاں متعارف کروانے کےلیے بھی ضروری اقدامات کی ہدایات کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایم وی آئی سینٹرز شرجیل انعام میمن کمرشل گاڑیوں ہائی وے رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
ریاض احمدچودھری
ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں نامساعد موسم ، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور اپنے گھروں سے دور بھارتی جیلوں میں نظربندسینکڑوں کشمیریوں کو درپیش سنگین صورتحال کو اجاگرکرتے ہوئے کہاکہ کشمیری نظربندوں کو پینے کے صاف پانی، صحت بخش خوراک اور مناسب طبی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے جس سے انہیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سے نظربند بے چینی، ڈپریشن اورذہنی تنائو سمیت صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہیں جو سورج کی روشنی، مناسب غذائیت اور علاج ومعالجے کے فقدان کی وجہ سے سنگین رخ اختیارکررہے ہیں۔ڈی ایف پی نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیاکہ وہ کشمیری نظربندوں کو خاص طور پر تہاڑ جیل میںجہاں نظربندوں کو ان کے اہل خانہ سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھا جارہا ہے، درپیش صورتحال کی تحقیقات کریں۔ انسانی حقوق کے اداروں کو موثر کارروائی کرنی چاہیے اور موقع پر جاکرجائزہ لینا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
گزشتہ برس جنیوا میں کمیشن برائے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں،حریت قیادت کو مسلسل جیلوں میں بند رکھنے، کشمیریوں کی جائیدادوں پر بھارتی فوج کا قبضہ، غیر کشمیری باشندوں کو آباد کرنے پر تحریک کشمیر یورپ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیریوں کا قتل عام بند کرائے، حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم، یاسین ملک، شبیر شاہ،نعیم خان، ڈاکٹر قاسم فکٹو،آسیہ اندرابی، ایاز اکبر، نہیدا نسرین، پیر سیف الدین، فہمیدہ صوفی اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
حریت رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کر رکھا ہے، حریت قیادت سمیت 10لاکھ کشمیری غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند ہیں، کشمیریوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، عالمی برادری اپنی خاموشی توڑے، کشمیر یوں کی نسل کشی اور قتل عام بند کرایا جائے۔ بھارت کا اصل روپ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا، مودی انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے، بھارت نام نہاد جمہوریت کے لبادے میں دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے، کشمیری اپنے حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، یہ حق انہیں عالمی امن کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ نے دیا ہے، بھارت کے ناپاک عزائم اور سازشوں کو نہ روکا گیا تو خطے میں تباہی اور بربادی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہوگی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیر پر اپنی رپورٹوں پر عمل درآمد کرائے، اپنے وفد کو مقبوضہ کشمیر بھیج کر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور بھارت کے ظلم کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 14/ستمبر 2020ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری 2020ء میں شمالـمشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان فسادات کے اہم سازشی ہیں۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کسی ضمانت یا ٹرائل کے بغیر تہاڑ جیل کی انتہائی سیکیورٹی کی حامل قید میں ہیں۔ ان چار سالوں میں عمر خالد نے ضمانت کی خاطر مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ) سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر (ضمانت کو ) ایک ”قاعدے” کے طور پر بیان ہے، ایک ایسا قاعدہ جو یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے لیے بھی لائق اطلاق ہے۔ 36 سالہ جہد کار، جو ہنوزمجرم قرار نہیں دیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک ملزم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
فسادات کے بعد مختلف کیسوں کے تحت دہلی پولیس نے چند مہینوں کے اندرون 2500 افراد کو گرفتار کیا۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گذشتہ چار سالوں میں نچلی عدالتوں نے اکثر مواقع پر پولیس کو ناقص تفتیش پر ڈانٹ لگاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ضمانت دے دی ہے۔ 2020ء کے فسادات سے متعلق مقدمات میں ایک بڑا سازشی مقدمہ وہ ہے جس میں پولیس نے مسٹر خالد کو دیگر 17 افراد کے ساتھ ملزم قرار دیا ہے، جن میں سے کئی ضمانت پر رِہا ہیں۔قید کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ انہیں مارچ 2022ء میں کارکاردوما عدالت کی جانب سے ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی اکتوبر 2022ء میں انہیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خالد نے ضمانت کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی۔ فروری 2024ء تک سپریم کورٹ میں ان کی درخواست سماعت سے پہلے ہی 11 مہینوں میں 14 دفعہ ملتوی کی جا چکی تھی۔ یہ التوا کبھی فریقین میں سے کسی وکیل کی غیر حاضری کے باعث ہوا تو کبھی استغاثہ کی درخواست پر۔
اگست 2023ء میں جسٹس اے ایس بوپنا اور پی کے مشرا کی ایک بینچ نے عمرخالد کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ ”(ججوں کے) اس مجموعے میں سماعت نہیں کی جاسکتی”۔ بعد ازاں 5 ستمبر 2023ء کو مقدمہ ایک بینچ کو منتقل کر دیا گیا جس کی قیادت جسٹس بیلا. آم. ترویدی کر رہے تھے جسے خالد کے وکیل کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے موقع پر 12/ اکتوبر کو بینچ نے ”وقت کی کمی” کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو ملتوی کر دیا۔ نومبر میں ”متعلقہ سینئر وکلاء کی عدم دستیابی” کے باعث ضمانت کی عرضی کو دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔