گوگل نے اگست 2024 میں اپنے مصنوعی ذہانت (اے آئی) ماڈل جیمنائی پر مبنی “ہیلپ می رائٹ” فیچر متعارف کرایا تھا جو جی میل صارفین کو ای میل تحریر کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اب اس فیچر کو مزید بہتر بناتے ہوئے گوگل نے متعدد نئی زبانوں کی سپورٹ شامل کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے صارفین اپنی مادری زبان میں ای میلز تحریر کر سکیں گے۔اس فیچر کے ذریعے صارفین ایک کلک کے ساتھ نئے ای میل ڈرافٹس تیار کر سکتے ہیں یا چند الفاظ فراہم کرکے مکمل ای میلز لکھوا سکتے ہیں۔

پہلے یہ سہولت صرف انگریزی، ہسپانوی اور پرتگالی زبانوں تک محدود تھی لیکن اب گوگل نے جاپانی اور کورین کے ساتھ ساتھ فرنچ، جرمن اور اطالوی زبانوں کی سپورٹ بھی شامل کر دی ہے۔اس اپ ڈیٹ سے مختلف زبانوں میں ای میلز تحریر کرنا یا انہیں بہتر بنانا اب پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو جائے گا۔

گوگل کے مطابق اس فیچر کو استعمال کرنے کے لیے صارفین کو اپنے ای میل ڈرافٹ کا آغاز کم از کم 12 الفاظ سے کرنا ہوگا جس کے بعد “پالش” کا آپشن ظاہر ہوگا۔یہ قدم عالمی صارفین کے لیے جی میل کے تجربے کو مزید سہل اور جامع بنانے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

یہ بھکاری ’’ ترقی ‘‘ کی جانب گامزن

ایک سروے کے مطابق 24کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3کروڑ80لاکھ بھکاری ہیں۔جس میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور،7فیصد اسلام آباد اوربقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے ۔ کراچی میں روزانہ ایک بھکاری کو ملنے والی اوسط بھیک 2000روپے ، لاہور میں 1400روپے اور اسلام آباد میں 950روپے تک ہے۔ ذرا غور فرمائیں پھر ان لوگوں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔

ایک طرف بیچارے رزق حلال 25سے 35ہزارروپے کمانے والے سفید پوش ہیں جب کہ یہ بھکاری کم از کم ماہانہ 60ہزارروپے کماتے ہیں ۔ داد دیں ان بھکاریوں کی ترقی پسندانہ سوچ کو کہ انھوں نے راتوں رات ترقی کرنے کے لیے اب سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کا رخ کرلیا ہے ۔ جہاں وہ تین سے چار لاکھ روپے ماہانہ آسانی سے کما لیتے ہیں ۔ پاکستان اگر ان بھکاریوں کی وجہ سے بدنام ہوتا ہے تو ان کی بلا سے ۔شرم دلاؤ تو ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ پاکستان خود ایک بھکاری ملک کے طور پر دنیا میں مشہور ہے ۔ اندازہ لگائیں تقریباً چار کروڑ افراد کا صرف بھیک مانگنا ہی ان کا ذریعہ معاش ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم مدتوں پہلے عزت نفس سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اس میں قصور ہمارے حکمرانوں کا ہے ۔ کسی اور کا نہیں کیونکہ ان کے پیش نظر صرف اپنا مفاد رہا جس ملک میں کرپشن ، سفارش ، اقربا پروری کا دور دورہ ہو ، میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہو ۔ لاکھوں نوجوان اعلیٰ ڈگریاں لے کر سڑکوں پر جوتے چٹخا رہے ہوں وہاں کوئی کیا کرسکتا ہے۔ کرپشن کی حیرت انگیز ناقابل یقین خبر ابھی حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ جعلی بھرتیوں کے ذریعے پچھلے 32 سالوں میں پنجاب میںلوکل گورنمنٹ کے ادارے کے ذریعے 6ارب سے زیادہ قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے ۔

اب تو کرپشن کا سائز بھی لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں پہنچ چکا ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ میں حال ہی میں اربوں کے گھپلے سامنے آئے ہیں اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں بیشتر اعلیٰ درجے کے اہلکار شامل ہیں یہی حال زکوۃ فنڈ کا ہے ۔ بلوچستان حکومت نے اس محکمے کو ہی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کرپشن اور خرچے حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ وہ افراد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں جو رزق حلال پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ورنہ بڑی تعداد وہ ہے جو لوٹ مار کے نئے سے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ کرپشن کی مذمت اب وہ لوگ کرنے والے رہ گئے ہیں جو خود کرپشن نہیں کر پاتے اور انھیں کرپشن کا موقع نہیں ملتا۔

’’روزانہ ‘‘ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ ذرا روزانہ پر غور فرمائیے ! سالانہ یہ رقم 117کھرب روپے بنتی ہے ۔ ڈالر کے حساب سے یہ رقم 42ارب ڈالر بنتی ہے ۔ بغیر کسی کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 117کھرب روپے نکل جاتے ہیں ۔ اور جب کہ سونے پر سہاگہ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21''فیصد " مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ 117ارب روپے انتہائی کثیر رقم ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس رقم کو عوام کے تعاون سے اس طریقے سے استعمال کرے کہ ایک طرف ان بھکاریوں کو با عزت روزگار ملے دوسری طرف یہ رقم ملکی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنے ۔

ادارہ شماریات پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے 8ماہ میں 5.17ارب ڈالر یعنی 1451 ارب روپے کی پاکستانی غذائی اشیاء ایکسپورٹ کی گئیں ۔ جن میں چاول ، چینی اور گوشت سرفہرست ہیں ۔ یوں زرمبادلہ تو حاصل ہوا مگر منفی پہلو یہ ہے کہ ان غذاؤں کی قیمت مقامی مارکیٹ میں بڑھ گئی ۔ پچھلے ساڑھے تین سال میں باسمتی چاول فی کلو 150روپے سے بڑھ کر 400روپے فی کلو ہو چکا ۔ بڑا گوشت 700روپے کلو ملتا تھا اب 1500روپے کلو مل رہا ہے ۔ اور مٹن 3000روپے کا صرف ایک کلو ۔اور چکن کی صورت حال یہ ہے کہ اس کی قیمت 800روپے کلو سے بھی بڑھ گئی ہے ۔ یعنی چکن بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے ۔ جب کہ صرف ایک لیٹر تیل گھی 600روپے پر پہنچ چکا ہے ۔

دنیا میں دستور یہ ہے کہ حکومتیں وہ غذائی اشیاء برآمد کرتی ہیں جو عوام کے استعمال کے بعد بچ جائیں سب سے پہلے وہ عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتی ہے پھر بچی ہوئی اشیاء کو ایکسپورٹ کرتی ہیں یہ طریقہ اختیار کرنے سے ترقی یافتہ ممالک میں مدتوں قیمتیں ایک ہی جگہ ٹھہری رہتی ہیں ۔ وہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں یا تو اضافہ ہوتا ہی نہیں یا بہت کم نہ ہونے کے برابر ۔

گزشتہ مارچ کے آخر سے اگلے ڈھائی سالوں کے لیے دنیا ایک بدترین دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ جس کا آغاز اپریل سے جون جولائی کے درمیان ہو جائے گا۔ جو کچھ ہو گا وہ ناقابل یقین اچانک ہوگا ۔ عروج کو زوال اور زوال کو عروج ، زلزلے آفات ، زمینی وسماوی وغیرہ سب اس کا حصہ ہونگے ۔

متعلقہ مضامین

  • اب آپ کن اسمارٹ فونز پر یوٹیوب و دیگر گوگل سہولیات استعمال نہیں کرسکیں گے؟
  • واٹس ایپ صارفین کے لیے اچھی خبر، نیا مزیدار فیچر متعارف
  • چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سینیٹر روبینہ خالد کاای-کچہری سیشن
  • یوٹیوب صارفین کیلئے اہم خبر ، نیاحیران کن اے آئی فیچرسامنے آ گیا
  • فیصل آباد فوٹو جرنلسٹ ایسوسی ایشن پریس کلب (رجسٹرڈ) کی جانب سے ممبران میں یونین کارڈز تقسیم، صدر و سیکرٹری سمیت سینئرز کی بھرپور شرکت
  • سی ایم پنجاب فری سولر پینل اسکیم کا باقاعدہ افتتاح
  • سعودی عرب ، امریکا کی ایٹمی توانائی کے معاہدے پر دستخط کے لیے بات چیت
  • بنگلہ دیش نے اسرائیل کے سفر کی پابندی دوبارہ لگادی
  • یہ بھکاری ’’ ترقی ‘‘ کی جانب گامزن