پی ٹی وی ملازمین تنخواہوں کے منتظر، ذمہ دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اپریل 2025ء) پاکستانکے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے رواں برس جنوری میں بیان دیا تھا کہ پی ٹی وی کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے نشریاتی حقوق حاصل کرنے کے لیے خطیر رقم ادا کی گئی ہے۔ وزیر نے یہ بیان جنوری کے آخر میں دیا تھا جب دسمبر کی تنخواہیں ملازمین کو ادا نہیں کی گئی تھیں۔
پاکستان: الیکشن کے ایک سال بعد شہباز شریف کی حکومت کہاں کھڑی ہے؟
آبادی، مہنگائی اور جی ڈی پی، پاکستان پانچ سال بعد کہاں کھڑا ہو گا؟
اس اعلان کو چار ماہ گزرنے کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا اور پی ٹی وی کے ہزاروں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں 20 سے 25 دن کی تاخیر کا سامنا ہے، جبکہ سینکڑوں ایسے ملازمین جو تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے ذریعے پی ٹی وی کو خدمات فراہم کر رہے ہیں، تین ماہ سے اپنی تنخواہوں کے منتظر ہیں۔
(جاری ہے)
ان افراد میں زیادہ تر سیکیورٹی گارڈز شامل ہیں جو ملک بھر میں پی ٹی وی کو سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی وی نے ان کی متعلقہ کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کی۔پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن ایک ریاستی ملکیتی نشریاتی ادارہ ہے۔ یہ 1964ء میں قائم کیا گیا اور وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت کام کرنے والا خودمختار عوامی شعبے کا ادارہ ہے۔
پی ٹی وی نیوز، پی ٹی وی ورلڈ، پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی اسپورٹس بھی اسی کارپوریشن کے تحت ریاستی ملکیتی چینلز ہیں۔ یہ ادارہ اپنی آمدن لائسنس فیس اور اشتہارات کے ذریعے خود پیدا کرتا ہے۔محمد اشرف، پی ٹی وی کے سابق ملازم اور ملازمین یونین کے صدر رہ چکے ہیں اور پی ٹی وی میں بے ضابطگیوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ صرف پی ٹی وی کے موجودہ ملازمین ہی تنخواہوں کی تاخیر کا شکار نہیں، بلکہ ریٹائرڈ ملازمین بھی ادارے کی بے حسی کا شکار ہیں، کیونکہ انہیں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن کی رقم تک نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے کہا، ''واجب الادا کُل رقم دو ارب سے زائد ہے، جو پی ٹی وی کے لیے کوئی بڑی رقم نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ ادارہ صرف لائسنس فیس سے سالانہ تقریباً نو ارب روپے کماتا ہے، جبکہ اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن اس کے علاوہ ہے۔‘‘ پی ٹی وی ملازمین کس طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں؟الیاس اسٹیفن، جو اکتوبر دو ہزار بائیس میں ریٹائر ہوئے، ان افراد میں شامل ہیں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی رقم نہیں مل رہی۔
اسٹیفن نے، جو پی ٹی وی اسپورٹس میں چیف کیمرہ مین کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے پی ٹی وی سے درخواست کی تھی کہ میری پنشن کی رقم جاری کی جائے کیونکہ مجھے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی، لیکن کسی نے میری اپیل پر کان نہیں دھرے۔‘‘ تنخواہوں میں تاخیر کیا صرف پی ٹی وی کا مسئلہ؟پاکستان میں تنخواہوں میں تاخیر کا مسئلہ کبھی کبھار سامنے آتا ہے، اور حال ہی میں خیبر پختونخوا کے مقامی حکومت کے ملازمین کو فروری کے مہینے کی تنخواہیں اور پنشن تاخیر سے ملی۔
تاہم، پاکستان ٹیلی ویژن کے ملازمین کے مطابق، پی ٹی وی نے ماضی میں کبھی تنخواہیں تاخیر سے نہیں دیں اور ہر ماہ کے آخر میں رقم منتقل کی جاتی تھی، لیکن گزشتہ چار ماہ سے مسلسل تاخیر کا سامنا ہے۔ ملازمین اور پنشنرز اس صورتحال کو کمزور گورننس اور کرپشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جو اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔محمد اشرف اس بارے میں کہتے ہیں، ''پی ٹی وی کو مالی بحران کا سامنا خراب گورننس اور مالی معاملات میں شفافیت کی کمی کی وجہ سے ہے۔
ہم ہمیشہ اس مسئلے پر آواز اٹھاتے آئے ہیں، مگر انتظامیہ سنجیدگی سے نہیں لیتی۔‘‘پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک سابق منیجنگ ڈائریکٹر بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر مالی معاملات میں شفافیت اور اچھی گورننس ہو تو پی ٹی وی ایک منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ ارشد خان دو مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ارشد خان آخری دفعہ 2019ء میں ایم ڈی پی ٹی وی تھے۔
ارشد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی وی میں ترقی کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے لیکن اگر گورننس بہتر ہو اور مداخلت کم ہو۔ ادارے کی بہتری کے لیے باصلاحیت افراد کی بھرتی ضروری ہے۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ٹی وی کے ملازمین کو تاخیر کا کا سامنا چکے ہیں کے لیے
پڑھیں:
نیپرا کو نظرثانی درخواست سے متعلق سخت پالیسی پر تنقید کا سامنا
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو ریگولیٹری فیصلوں پر نظر ثانی اور اپیلوں کے لیے صارفین سے بھاری فیس وصول کرنے پر اندرون و بیرون ملک سے تنقید کا سامنا ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بات کراچی کے صنعتی صارف محمد عارف بلوانی کی جانب سے کے الیکٹرک کے بجلی کے پیداواری نرخوں کے معاملے میں خامیوں کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو تکنیکی بنیاد پر مسترد کرنے پر بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے نیپرا کے ممبر (ٹیرف) متھر نیاز رانا کے سخت اختلافی نوٹ کے بعد سامنے آئی۔
10 اپریل کو جاری ہونے والے ریگولیٹری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عارف بلوانی کے الیکٹرک کے بجلی کی پیداوار کے ٹیرف کے معاملے میں فریق نہیں تھے اور انہوں نے تقریباً 10 لاکھ روپے فیس ادا نہیں کی لیکن عام صارف کے طور پر صرف ایک ہزار روپے ادا کیے اور اس وجہ سے ریگولیٹر کی جانب سے قبول کیے جانے کے اہل نہیں ہیں۔
تاہم متھر نیاز رانا نے اپنے اختلافی نوٹ میں ریگولیٹر کو یاد دلایا کہ نیپرا نے ماضی میں بھی اسی طرح کی درخواستوں کی منظوری دی تھی جس میں وفاقی حکومت بھی شامل تھی۔
انہوں نے کہا کہ نیپرا کو نیپرا ایکٹ کے تحت شفافیت اور غیر جانبداری کے ذریعے صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لیے عوام کو قابل رسائی اور سستا میکانزم فراہم کرنے کی ضرورت ہے، ’یہ انصاف، رازداری اور کارروائی کی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے عوامی شرکت اور انصاف تک رسائی کو فروغ دیتا ہے‘۔
رکن نیپرا بلوچستان نے کہا کہ نیپرا کی قانونی ٹیم نے نظرثانی کی تحریک کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ عارف بلوانی ریگولیشنز کے تحت کارروائی میں براہ راست فریق نہیں تھے، لیکن نیپرا ایکٹ کے سیکشن 7 (6) نے وسیع پیمانے پر عوام کی شمولیت کی اجازت دینے کے لیے کافی لچک فراہم کی ہے، انہوں نے کم سے کم یا بغیر لاگت کے عمل کے ذریعے عوام کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کی اجازت دینے کی پرزور وکالت کی۔
انہوں نے دلیل دی کہ ’طریقہ کار کے ایسے تکنیکی معاملات جن میں عوام کے حقوق متاثر ہورہے ہوں، ان میں عوامی شرکت کو خارج نہیں کرنا چاہیے‘، اس کے بجائے گزارشات کو ان کے میرٹ کی بنیاد پر جانچا جانا چاہئے اور اگر ضروری ہو تو انہیں صرف ٹھوس بنیاد پر مسترد کیا جانا چاہیے’۔
انہوں نے کہا کہ مداخلت اور تبصروں کے ذریعے عوام کی فعال شمولیت کا مطلب ریگولیٹری شفافیت اور احتساب کو مضبوط بنانا ہے، ریگولیٹر کو یاد دلایا گیا کہ مظفر گڑھ میں 600 میگاواٹ کے سولر پلانٹ کیس میں انرجی اینڈ پاور سلوشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ کی مداخلت کو بھی اصل کارروائی میں فریق نہ ہونے کے باوجود قبول کیا گیا۔
اس کے علاوہ نیپرا میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں نظرثانی درخواست دائر کرنے میں تاخیر کو معاف کیا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ عوامی جائزے کی تحریکوں کے لیے پہلے سے طے شدہ ایک ہزار روپے کی فیس کو بحال کیا جائے کیونکہ یوٹیلیٹی کی جانب سے ادا کی جانے والی فیس کا نصف وصول کرنا غیر معقول ہے۔
توانائی کے شعبے کے تجزیہ کار اور نیپرا کی سماعتوں میں باقاعدگی سے شریک ریحان جاوید نے بھی نیپرا کے رکن متھر رانا کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح ریگولیٹری طریقہ کار، جس کا اصل مقصد شفافیت کو یقینی بنانا تھا، عوام کی شرکت کو محدود کرنے اور صارفین پر بوجھ ڈالنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیپرا کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کو طریقہ کار کی بنیاد پر مسترد کیا گیا، خاص طور پر ’فریق‘ کے طور پر اہل نہ ہونے اور صرف ایک ہزار روپے کی فیس کے بجائےاصل ٹیرف پٹیشن کی عائد کردہ نئی 50 فیصد فیس ادا کرنے میں ناکامی کو جواز بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’فیس کے ڈھانچے میں مناسب لچک کے بغیر تبدیلی مؤثر طریقے سے عوامی نگرانی کو خارج کرتی ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ صارفین ٹیرف میں اضافے کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں جو ان کے بلوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔
دریں اثنا طریقہ کار کی سختی کا سبب بننے والی ریگولیٹری ترامیم ٹیرف کے فیصلوں کو وسیع تر جانچ پڑتال سے بچا کر طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
ریحان جاوید نے کہا کہ ممبر (ٹیرف) متھر نیاز رانا کے اختلاف رائے نے ریگولیٹری قوانین کے بارے میں اجارہ داریوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اوزار میں تبدیل ہونے جبکہ نااہلیوں اور نقصانات کو عوام پر منتقل کیے جانے کے خطرے کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس سے احتساب کو نقصان پہنچتا ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور بلاجواز ٹیرف منظوریوں کے ذریعے عوام کے پیسے کا غلط استعمال ہوتا ہے۔
نیپرا نے اپنے اکثریتی فیصلے میں صارف محمد عارف کی جانب سے جمع کرائی گئی نظرثانی کی تحریک کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے واپس کردیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کے لیے کے الیکٹرک ٹیرف پٹیشن کے معاملے میں فیصلے کی کارروائی میں فریق بننے کے اہل نہیں ہیں۔
نیپرا نے مزید کہا تھا کہ درخواست گزار نے 9 لاکھ 34 ہزار 722 روپے فیس اور درخواست دائر کرنے میں تاخیر پر یومیہ 10 ہزار روپے بھی جمع نہیں کرائے تھے۔
Post Views: 1