ایران کو جوہری ہتھیاروں کا خواب دیکھنا چھوڑ دے.ڈونلڈ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دھمکی دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کا خواب دیکھنا چھوڑ دے ورنہ وہ سنگین ردعمل کے لیے تیار رہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ ایران جان بوجھ کر امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے میں تاخیر کر رہا ہے اور اسے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کسی بھی مہم کو ترک کرنا ہوگا یا تہران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ فوجی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا.
(جاری ہے)
صدرٹرمپ نے کہا کہ میرے خیال میں وہ ہمیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں ایران اور امریکا دونوں نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ انہوں نے عمان میں مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے ٹرمپ نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کا خواب دیکھنا چھوڑ دے ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جوابی کارروائی کے لیے امریکا کے آپشنز میں تہران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملہ بھی شامل ہے صدر ٹرمپ نے کہا کہ یقیناً ایسا ہوسکتا ہے. امریکی صدر نے کہا کہ ایرانیوں کو سخت ردعمل سے بچنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے کافی قریب ہیں سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہوئے تھے، لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھیدونوں حکومتوں کے درمیان آخری براہ راست مذاکرات اس وقت کے صدر براک اوباما کے دور میں ہوئے تھے جنہوں نے 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے کی قیادت کی تھی جسے ٹرمپ نے بعد میں ختم کر دیا تھا اور اپنے پہلے دور صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری ہتھیاروں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کہ ایران
پڑھیں:
امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایرانی دارالحکومت تہران سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق خلیجی ریاست عمان کی ثالثی میں مسقط میں امریکہ اور ایران کے مابین بالواسطہ بات چیت کا، جو اولین مرحلہ کل ہفتہ 12 اپریل کو مکمل ہوا، اس کے اختتام پر یہ اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ دونوں ممالک کے وفود سات دن بعد دوبارہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے ملیں گے۔
اس مکالمت میں پیش رفت کے بارے میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سرکاری ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ ویک اینڈ پر اگلی بات چیت میں بھی ثالثی عمان ہی کرے گا جبکہ تہران اور واشنگٹن کے مذاکراتی نمائندوں کے مابین براہ راست کوئی بات چیت عمل میں نہیں آئے گی۔
اسماعیل بقائی نے کہا، ''اس بات چیت میں توجہ صرف ایرانی جوہری پروگرام پر اور تہران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز رہے گی۔
(جاری ہے)
‘‘ یہ اگلی بات چیت ہفتہ 19 اپریل کے روز ہو گی۔ساتھ ہی اسماعیل بقائی نے کہا، ''یہ طے ہے کہ ثالثی عمان ہی کرے گا۔ تاہم ہم مستقبل میں مزید مذاکرات کے لیے جگہ کے انتخاب پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔‘‘
کل ہونے والی بات چیت کا خاص پہلومسقط میں ہفتہ 12 اپریل کو تہران اور واشنگٹن کے مابین جو بالواسطہ بات چیت ہوئی، اس میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف کر رہے تھے۔
اس مکالمت کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ، اور ایران کے مابین ہونے والے اولین مذاکرات تھے۔ ایسی کوئی بھی دوطرفہ بات چیت صدر ٹرمپ کے 2017ء سے لے کر 2021ء تک جاری رہنے والے پہلے دور صدارت میں ایک بار بھی نہیں ہوئی تھی۔
اس مکالمت کی ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے لیے دونوں ممالک کے وفود ایک ہی جگہ پر موجود نہیں تھے بلکہ وہ دو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھ کر عمانی وزیر خارجہ کے ذریعے آپس میں پیغامات کا تبادلہ کر رہے تھے۔
اگر ایران نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام نہ چھوڑا تو اسرائیل ’حملے کی قیادت‘ کرے گا، ٹرمپ
اولین رابطوں کے بعد ابتدائی ردعملامریکہ اور ایران دونوں نے ہی پہلے مرحلے کی اس بات چیت کو تعمیری قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ واقعی کسی نہ کسی حل تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ایسا حقیقتاﹰ کب تک ممکن ہو پاتا ہے۔
ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: معاہدہ یا پابندیاں، ٹرمپ
مسقط مذاکرات کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ ایران کے ساتھ امریکہ کی اس بالواسطہ بات چیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، ''میرے خیال میں یہ بات چیت ٹھیک چل رہی ہے۔ ویسے، جب تک آپ کچھ کر نہ چکیں، تب تک کچھ بھی زیادہ اہم نہیں ہوتا۔‘‘
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو سرکاری میڈیا نے دو دیرینہ حریف ممالک کے مابین شاذ و نادر ہی ہونے والی اس بات چیت کو سراہا اور اسے تہران اور واشنگٹن کے تعلقات میں ایک ''تاریخی موڑ‘‘ کا نام دیا۔
ادارت: امتیاز احمد