پاکستان کو قومی ترقی میں چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر مختلف حکمت عملیاں اختیار کی جاتی ہیں مگر اس کے باوجود بہتر نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یا تو ہمیں مسائل کا حقیقی ادراک نہیں یا ہم ان مسائل کا ادراک رکھنے کے باوجود کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگرچہ ہمیں سیاسی، انتظامی، معاشی، حکمرانی اور سیکیورٹی کے تناظر میں مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔پچھلے دنوں گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات لینے ہوں گے۔
اس رپورٹ کے بقول پاکستان دہشت گردی کے موجودہ خطرے سے نمٹنے کے لیے وقت پر بیدار نہ ہوا تو معاشی بحالی اور قومی ہم آہنگی کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔اسی طرح متحرک حکمت عملی اور طویل مدتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک موثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگا۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی یہ رپورٹ ہماری قومی ترجیحات کے تعین میں بھی توجہ دلاتی ہے اور ہمارے داخلی سیاست کے مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے بحران کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی لہر داخلی،علاقائی اور عالمی سیاست سے منسلک مسائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ہمیں دہشت گردی کے مسائل کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوبھی ایک بڑے قومی اور علاقائی فریم ورک میں دیکھ کر موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہی ہمارے ریاستی مفاد میں ہوگا۔دہشت گرد جس بڑے اندازکو بنیاد بنا کر پاکستان کی ریاست کی رٹ اور اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں وہ واقعی ہمارے لیے تشویش کا پہلو ہے۔گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں یہ بھی انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 2023میں ہونے والے 517 دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں 2024 میں ہمیں ایک ہزار 99 حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ حصے ہیں جہاں 96 فیصد دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیںجو یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔
بنیادی طور پر اس طرح کی عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں سیکیورٹی کے حالات پیچیدہ اور سنگین ہیں۔یہ معاملات پاکستان کی داخلی اور خارجی سطح پر جو تصویر پیش کرتے ہیں اس پر مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر حکمت عملیوں اور کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی جنگ سے باہر نہیں نکل رہے اور دہشت گرد ہماری ریاست کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان حکومتی اور معاشرتی سطح پر سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہماری داخلی سطح پر سیاسی فیصلہ سازی کا عمل ہے اور ہم داخلی سیاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اگرچہ ہمارے حکمران بضد ہیں کہ ہم سیاسی اور معاشی طور پر درست سمت میں ہیں اوراعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ان کے بقول دہشت گردی پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں دہشت گردی کا ہر سطح پر خاتمہ ہوگا اور اس پر کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔یہ حکمرانوں کا بیانیہ ہے جب کہ ہمارے حقیقی مسائل حکمرانوں کے پیش کردہ ترقی پر مبنی خیالات سے مختلف ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہیں اس میں اتفاق رائے کا فقدان ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی سیاسی قیادت حکومت کے مقابلے میں مختلف جگہ پر کھڑی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو قومی اتفاق رائے درکار ہے اس میں کئی طرح کی سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان مسلسل ہمارے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے ایک بڑے تانے بانے عملاً افغانستان سے جڑتے ہیں۔لیکن افغانستان سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمیں معاونت درکار تھی وہ نہیں مل رہی۔ایک اچھی پیش رفت حالیہ دنوں میں یہ ہوئی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی طور پر کچھ مثبت پہلو اور بات چیت کا عمل سامنے آیا ہے۔بات چیت اور مکالمے کی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے یہ دو طرفہ دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔
سیاست کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسی سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ان کی سیاست اپنی جگہ مگر ریاستی مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو بھی ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے ۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں سیاسی یا غیر سیاسی فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا ان سے بات چیت کرنی ہوگی ۔دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور پاکستان میں ہر فریق چاہے وہ حکومت کا حصہ ہو یا حکومت سے باہر ہو اسے مل کر لڑنی ہے۔اگر ہم دہشت گردی کی اس جنگ میں خود باہمی ٹکراؤ یا تضادات کا شکار ہو جائیں گے تو پھر اس جنگ میں کامیابی کے امکانات بھی اور زیادہ محدود ہوں گے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے تو پھر ہماری حکمت عملی بھی غیر معمولی اقدامات پر مبنی ہونا چاہیے۔علاقائی صورتحال میں بھی افغانستان سمیت بھارت کے ساتھ میں اپنے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب یہ دونوں ممالک بھی پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تعلقات کو بہتر بنائیں۔کیونکہ علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بہتری کا عمل محض ان ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے مجموعی بہتر اثرات خطے کی سیاست پر بھی پڑیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دہشت گردی کے دہشت گردی کی پاکستان میں کا سامنا ہے حکمت عملی کے باوجود کے مسائل کے ساتھ کی جنگ ہیں کہ ہے اور ہیں اس
پڑھیں:
بھارتی آبی دہشت گردی: خطے کے لئے خطرہ!
بھارت میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ پاکستان دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ نریندر مودی جیسے شدت پسند جب اقتدار میں ہوں تو اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کا معاملہ نہایت پیچیدہ ہے لیکن غیر متوقع نہیں! خود ہی واردات کر کے الزام پاکستان پر دھرنا بھارت کا پرانا وطیرہ ہے۔ فالس فلیگ آپریشن کرنے کی بھارتی تاریخ بہت پرانی ہے پہلگام کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا ہے؟ اس واردات کے پیچھے متعدد مقاصد کار فرما ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہر مقصد پاکستان دشمنی اور کشمیریوں کی بربادی کے زہر میں بجھا ہوا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کا ڈاکہ ڈالنے کے بعد ایک جھوٹا بیانیہ گھڑا گیا۔ عالمی برادری کی انکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ تاثر پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر اب امن کا گہوارہ بن چکا ہے اور کشمیری اب مسلم دشمن بی جے پی اور گجرات کے قصاب نریندر مودی کی حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ حسب سابق زہریلی خواہشوں کا مجموعہ یہ جھوٹا بیانیہ عالمی سطح پہ بے نقاب ہوتا چلا گیا ۔G20 کی سالانہ سربراہی کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے کچھ تقریبات مقبوضہ کشمیر میں رکھنے کا ڈرامہ کیا تو پوری وادی ایک جیل کا منظر پیش کرنے لگی۔ امن کا تاثر دینے کے بجائے وادی نے ایک مقبوضہ خطے کا بھرپور تاثر دیا۔ الیکشن ہوئے تو کشمیریوں نے مسلم دشمن مودی اور بی جے پی کو مسترد کر دیا ۔ غیر کشمیریوں کو وادی میں آباد کرنے جیسے شرانگیز منصوبے کے ذریعے مسلم اکثریت کو بدلنے کا منصوبہ عوام میں نفرت اور غصے کا باعث بنا ہوا ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ سمیت تمام جدید مواصلاتی رابطوں کے ذرائع بند ہیں۔ یہ کشیدہ صورتحال مودی سرکار کی جگ ہنسائی اور سیاسی ہزیمت کا باعث بن چکی ہے۔ عالمی سطح پر دہشت گردی، سرحد پار قتل، دوست ممالک میں جاسوسی اور بلیک میلنگ جیسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث بھارتی خفیہ اداروں کے کرتوت بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کینیڈا، امریکہ اور قطر نے بھارت کے ریاستی اداروں کے مجرمانہ سازشی کردار پر متعدد بار اعتراضات اٹھائے ہیں ۔بھارت مخالف سکھ رہنمائوں کے قتل کے لیے کرائے کے قاتل استعمال کرنے والے ’’را‘‘کے اہلکار کو بلی کا بکرا بنا کر بھارت نے خود ہی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے انگنت ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ کالعدم بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور بی ایل ایف جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد گروہوں سے بھارتی ریاستی اداروں کے تعلقات کا جیتا جاگتا ثبوت کلبھوشن کی صورت پاکستان کی تحویل میں ہے۔ پہلگام میں اپنے شہریوں کو ہلاک کروا کر مودی سرکار نے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اول، مقبوضہ کشمیر میں بدترین ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر عالمی برادری کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوم، اس دہشت گردی کو جواز بنا کر مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کے خلاف ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال کرنے کا جواز پیدا کیا گیا ہے۔ سوم، حسب سابق پاکستان دشمنی کے نعرے بلند کرکے جنگی جنون پیدا کر کے مقامی ہندو آبادی میں نفرت کی بنیاد پر سیاسی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔چہارم، پاکستان مخالف کالعدم دہشت گرد گروہوں سے بھارت کے ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کے ثبوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گردی کا گھسا پٹا بیانیہ بنایا گیا ہے۔ پنجم، واضح دکھائی دے رہا ہے کہ پہلگام میں سیاحوں کے قتل کا ڈرامہ رچا کر دراصل مودی سرکار سندھ طاس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کے بہانے تراش رہی ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت کو برباد کرنے کے لیے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بھارتی خواہش بہت پرانی ہے۔ پہلگام ڈرامے کے بعد کی معنی خیز وارداتیں سمجھنا مشکل نہیں۔
جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے لیکن مودی سرکار کے جھوٹ تباہ کن اور نفرت انگیز ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کا ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ہی کرائے کے سوشل میڈیا کلاکاروں نے پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے ٹویٹوں کی برسات کر دی۔ واقعے کے محض دس منٹ بعد ایف آئی ار درج کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کا معاملہ بھارت کا اپنا تخلیق کیا ہوا ڈرامہ ہے مودی کی قیادت میں بی جے پی نے بھارت کو سیکولرزم سے دور دھکیل کر ہندوتوا نظریے کی نرسری میں بدل دیا ہے۔ ریاست کے معاملات شدت پسند جنونیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔تجزیہ کار، اینکر ،ریٹائرڈ جرنیل اور سفارت کار جنگ کے جنون میں اندھے ہو کر پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے پیش کر رہے ہیں۔ یہ جنونی پورے خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ پانی بند کرنے کی دھمکیاں اور سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کا فیصلہ مودی کے زہریلے منصوبوں کے عکاس ہیں۔ ہندوتوا کے جنونی پرچارک دہشت گرد دی نہیں دراصل کشمیریوں اور پاکستانیوں کو وجود کو مٹانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے نہایت نپے تلے انداز میں دندان شکن موقف اپنایا گیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ بھارت کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ فضائی حدود بند ہونے کے بعد بھارتی ایئر لائنز پر پڑنے والا مالی دبائو مودی سرکار کو یقینا محسوس ہو رہا ہوگا۔ عالمی قوانین کے تحت سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی۔ عسکری محاذ پر آمنے سامنے نبرد ازما ہونے کے معاملے میں بھارت کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جعلی سرجیکل اسٹرائیک کے جنون میں مبتلا بھارت نے جنگی جہاز گرانے والے پائلٹ کو تمغے دے کر ایک عجیب شرمناک روایت کی داغ بیل رکھی تھی۔ موجودہ حالات میں آبی دہشت گردی کے بے نقاب ہوتے عزائم بے حد خطرناک ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس معاملے پر ہمہ وقت متحد اور چوکنا ہو کر بھارت کے عزائم ناکام بنانے ہوں گے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے یہ کبھی بھی باتوں سے نہیں سدھرے گا۔