حکومت بلوچستان امن و امان کیلئے پالیسی واضح کر رہی ہے، ظہور بلیدی
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
صوبائی وزیر ظہور بلیدی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انویسٹرز اور شہریوں کو پرامن اور محفوظ ماحول میسر کرنے کیلئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ظہور احمد بلیدی نے کہا ہے کہ حکومت بلوچستان امن و امان کے حوالے سے پالیسی واضع کر رہی ہے۔ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے شپ بریکنگ ایکٹ لا رہے ہیں۔ جلد اس ایکٹ کی منظوری اور شپ بریکنگ کو انڈسٹری کا درجہ دلانے کیلئے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ آمد کے موقع پر بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کمپلکس میں جائزہ اجلاس کی صدارت کے دوران کیا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ بلوچستان میں انویسٹرز اور شہریوں کو پرامن اور محفوظ ماحول میسر کرنے کیلئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کی ماڈرنائزیشن کے حوالے سے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ظہور بلیدی نے کہا کہ ہیومن ڈیولپمنٹ کے حوالے سے بی ڈی اے ایسا پلان تیار کرے جس سے براہ راست فوائد عوام کو میسر ہوں۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کو ماڈل یارڈ بنانے کیلئے وفاقی حکومت نے 12 ارب روپے پراجیکٹ کی منظوری دی ہے۔ اس پراجیکٹ کی بدولت شپ بریکنگ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوگا۔ انویسٹرز کو سہولیات میسر ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کنونشن روڈ میپ کے تحت ناکارہ بحری جہازوں کی ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ ری سائیکلنگ منصوبے پر حکومت پاکستان عملدرآمد کر رہی ہے۔ حکومت کیلئے ٹیکس ریونیو جنریشن کے علاوہ ملکی معیشت کی ترقی کیلئے گڈانی شپ بریکنگ ری سائیکلنگ انڈسٹری رول ماڈل کا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس موقع پر چیئرمین بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیپٹن ریٹائرڈ جاوید نے بریفنگ میں بتایا کہ حکومت کی جانب سے شپ بریکنگ انڈسٹری کی ترقی کیلئے منظورشدہ پراجیکٹ میں روڈ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ، 30 بیڈڈ ہسپتال، جدید ترین ریسکیو سینٹر، فائر بریگیڈ اسٹیشن اور ون ونڈو فیسلیٹیشن سینٹرواٹر پراجیکٹ کا قیام منصوبے میں شامل ہیں۔ سنئیرصوبائی وزیر کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے شپ ری سائیکلنگ آپریشنز سے پیدا ہونے والے مضر فضلہ کوٹریٹمنٹ اسٹوریج سہولیات منصوبے پر کام جاری ہے۔ پاکستان میں اسٹیل سیکٹر کیلئے شپ بریکنگ انڈسٹری سے خام مال حاصل کرنیوالی ری رولنگ ملز اور الائیڈ انڈسٹریز سے وابستہ بڑی تعدادمیں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے وفد نے نشاندہی کہ گزشتہ چند سالوں سے اسمگل شدہ نان کسٹم پیڈ ایرانی اسکریپ کی وجہ سے انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے۔ جس سے حکومت کو ٹیکس ریونیو دینے والی انڈسٹری سے وابستہ صنعت کاروں کو چیلنجز درپیش ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت ایرانی اسکریپ کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے، تو ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ صوبائی وزیر نے انڈسٹری کی ترقی کیلئے شپ بریکرز ایسوسی ایشن کی تجاویز اور کردارکو قابل قدر قرار دیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ اس معاملے پر وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پائیدار ترقی کیلئے ماہرین معیشت اور پالیسی سازوں کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا، احسن اقبال
اسلام آباد:وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کو جمود، غیر یقینی اور پالیسیوں کے عدم تسلسل سے نکال کر پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ماہرین معیشت، محققین اور پالیسی سازوں کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ پاکستان سوسائٹی آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی ایس ڈی ای ) کے 38ویں سالانہ اجلاسِ سے بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کے دوران وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ اڑان پاکستان کے تحت حکومت کا ہدف 2035 تک پاکستان کو ایک کھرب ڈالر کی معیشت بنانا ہے اور اس منزل تک رسائی تبھی ممکن ہے جب قومی پالیسیاں تحقیق، اعداد و شمار اور سائنسی بنیادوں پر استوار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین معیشت قوم کی معیشت کے معالج ہوتے ہیں جنہیں بیماری کی درست تشخیص کر کے علاج تجویز کرنا ہوتا ہے، پاکستان کی معیشت اس وقت جس بحران کا شکار ہے، وہ وقتی نہیں بلکہ نظامی اور ڈھانچہ جاتی نوعیت کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ترقیاتی ماڈل کو ازسرنو تشکیل دینا ہوگا اور ان ممالک سے سیکھنا ہوگا جنہوں نے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کیا مگر آج کہیں آگے نکل چکے ہیں، ان ممالک نے پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا، ادارہ جاتی استحکام کو یقینی بنایا اور اصلاحات کو سیاست سے بالاتر رکھا اور یہی چیزیں ہمیں بھی درکار ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ ماہرینِ معیشت کا فرض ہے کہ وہ قومی ترجیحات پر اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ اہم پالیسی فیصلے ہر آنے والی حکومت میں برقرار رہیں اور قوم طویل المدتی ترقیاتی ہدف سے نہ ہٹے۔
وفاقی وزیر نے معاشی ماہرین پر زور دیا کہ وہ زرعی، آبی اور رہائشی منصوبوں میں موسمیاتی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو مستقبل کے خطرات سے بچاؤ کی ضمانت فراہم کریں۔