مستونگ، بی این پی کی آل پارٹیز کانفرنس، 9 مطالبات پیش کئے گئے
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
اے پی سی سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر بلوچستان کے مختلف مسائل سے متعلق نو مطالبات پیش کئے گئے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے بلوچستان کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے مستونگ میں لکپاس کے مقام پر جاری دھرنا گاہ میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان تحریک انصاف، مجلس وحدت مسلمین، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی، جماعت اسلامی، جمہوری وطن پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر طلباء اور تاجر تنظیموں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔ بی این پی کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں 9 قراردادیں منظور کی گئیں۔ بی این پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں دوران لانگ مارچ و دھرنا بی این پی کے کارکنوں اور بی وائی سی اکابرین و کارکنوں کو ہراساں کرنے، گرفتار کرنے اور وڈھ میں پرامن احتجاج کرنے کے دوران کارکنان عنایت اللہ لہڑی کی فورس کے ہاتھوں موت اور کارکنوں کو زخمی کرنے کی مذمت اور ملوث اہلکاروں کیخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے رہنماوں بشمول عمران خان، علی وزیر، ڈاکٹر یاسمین سمیت پی ٹی آئی، بی این پی اور سندھ بھر کینال تحریک میں گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ تیسرا مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان میں جاری وفاق کی جارحانہ پالیسی، فوجی آپریشن، سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے، تھری ایم پی او کے تحت گرفتاریاں، خوف کی فضاء قائم کرنے کیلئے طالب علم، دانشور، اساتذہ اور دیگر طبقات کیخلاف فورتھ شیڈول جیسے نوآبادیاتی پالیسیوں کو فورا ختم کیا جائے۔ چوتھے مطالبے میں کہا گیا کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل سے متعلق جاری قابضانہ رحجانات قانون سازی اور معاہدات بشمول مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025 کی فوری تنسیخ پی پی ایل معاہدہ کا خاتمہ، ریکوڈک معاہدے میں بلوچستان کے 50 فیصد حصہ داری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے ساتھ سرحدی علاقوں قومی شاہراہوں، ایف سی، کوسٹ گارڈ اور وفاقی اداروں کی تذلیل، لوٹ مار اور کرپشن کا ذریعہ بننے والی چیک پوسٹوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
چھٹا مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ اے پی سی ڈیورنڈ لائن چمن میں دو سال سے جاری دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ چمن سے جیونی تفتان سے منداور ماشکیل سے پنجگور تک تجارت پر پابندیوں کی مذمت اور سرحدی تجارت کو بحال کیا جائے۔ ساتواں مطالبہ تھا کہ اے پی سی بلوچستان کے مسئلے کے لئے قومی سطح پر ڈائلاگ کے آغاز اور 1948 کے الحاق کے دستاویزات اور بالترتیب آئین تحفظات پر عملدرآمد کو یقینی بنائی جائے۔ آٹھویں مطالبے میں کہا گیا کہ اے پی سی ذمہ داروں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور کاروباری حضرات کو حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کا ازالہ کرنے کا فوری اقدام کرے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ افغان کڈوال کے ساتھ جاری غیر انسانی غیر اسلامی طرز و طریقہ کار ختم کیا جائے اور نیشنلی اور انٹر نینشنلی، بین اقوامی رفیوجیز کے تحت طریقہ کار اپنایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آل پارٹیز کانفرنس بلوچستان کے کارکنوں کو کہا گیا کہ بی این پی کیا جائے اے پی سی کیا گیا
پڑھیں:
بلوچستان اور پہلگام
آج اگر خطے میںجنگ کے بادل چھائے نظر آ رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری ’’دہلی‘‘ پر عائد ہوتی ہے‘ پاکستان نے تو دہلی کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی سمیت دیگر اٹھائے گئے اقدامات کا بھرپور جواب دیتے ہوئے واہگہ بارڈر پوسٹ کو فوری طور پر بند کرنے، ہر قسم کی تجار ت اوربھارتی شہریوں کو جاری تمام ویزے معطل کرنے ، بھارتی ہائی کمیشن میں سفارت کاروں اور عملہ کی تعداد کم کرنے اور بھارتی ایئر لائنز پر پاکستانی فضائی حدود کی بندش کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سندھ طاس معاہدہ ملتوی کرنے کے بھارتی اعلان کو سختی سے مسترد کرتا ہے‘ پاکستان کا پانی روکنے کے کسی بھی عمل کو جنگ تصور کیا جائے گا‘سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت بھارتی شہریوں کو جاری تمام ویزے فوری منسوخ کر دیئے گئے ہیں تاہم سکھ یاتری اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
پاکستان اس وقت بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کرے گا، جو صرف شملہ معاہدے تک ہی محدود نہیں رہے گا، جب تک بھارت سرحد پار قتل و غارت، بین الاقوامی قوانین اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی عدم پاسداری سے باز نہیں آتا۔ پاکستان واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کر دے گاجو لوگ درست قانونی طریقے سے پاک بھارت سرحد عبور کر چکے ہیں وہ اس راستے سے فوری طور پر واپس جا سکتے ہیں، لیکن 30 اپریل 2025 ء کے بعد یہ سہولت بند کر دی جائے گی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتکاروں اور عملہ کی تعداد 30 اپریل 2025ء سے کم کرکے 30 کر دی جائے گی‘ پاکستان کی فضائی حدود میں ہندوستان کی ملکیت اور ہندوستان سے چلنے والی تمام ایئرلائنز کو فوری طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ تمام تجارت، بشمول کسی تیسرے ملک سے پاکستان کے راستے تجارت، فوری طور پر معطل کر دی گئی ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین ایک تصفیہ طلب تنازعہ ہے جسے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔ مسلسل ہندوستانی ریاستی جبر، ریاستی حیثیت کی منسوخی، سیاسی اور آبادیاتی ہیر پھیر، مسلسل غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے لوگوں کی طرف سے ایک فطری و مقامی ردعمل کا باعث بنی ہے، جو تشدد کی فضا کا باعث بنا ہے۔ وقف بل کی زبردستی منظوری کی کوششیں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ بھارت کو ایسے المناک واقعات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی پوری ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ اعلامیہ کے مطابق مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کی بھارتی کوششوں کا مقصد پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے توجہ ہٹانا ہے۔بھارت کی مظلومیت کا گھسا پٹا بیانیہ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کو ہوا دینے میں اس کے اپنے قصور کو چھپا نہیں سکتا اور نہ ہی وہ بھارتی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں اپنے منظم اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتا ہے ۔
پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت ہیں، جن میں ہندوستانی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر، کمانڈر کلبھوشن یادیو کا اعتراف بھی شامل ہے، جو ہندوستان کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا زندہ ثبوت ہے۔ پاکستان کی خودمختاری اور اس کے عوام کی سلامتی کو درپیش کسی بھی خطرے کا مقابلہ مناسب اور بھرپور انداز سے کیا جائے گا۔ بھارت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے الزام تراشی اور پہلگام جیسے واقعات کا منظم طریقے سے استحصال کرنے سے باز رہنا چاہئے۔ بھارتی ریاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی میڈیا کی جانب سے علاقائی امن و امان کو خطرے میں ڈالنا قابل مذمت ہے، اس حوالے سے بھارت کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی مہم جوئی کے خلاف اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی بھرپور صلاحیت کی حامل اور مکمل طور پر تیار ہے، جیسا کہ فروری 2019 ء میں بھارت کی دراندازی پر پاکستان کے بھارت کے خلاف بھرپور ردعمل سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے، 22اپریل کو پہلگام میں ہونے والے واقعے کے ابتدائی5 منٹ بعد ہی بدمعاش نریندر مودی کی طرف سے عجلت میں اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دینا حماقت کی انتہا نہیں تو پھر کیا ہے؟ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس واقعے میں ملوث افراد نریندر مودی کو پہلے اطلاع دینے کے بعد پھر پہلگام گئے، 9لاکھ فوج کی موجودگی میں بین الاقوامی نوعیت کے حساس سیاحتی مقام کا نشانہ بننے پر نریندر مودی کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے ، سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی کی ساری اکڑ اور بدمعاشی ہندوستان میں بسنے والی مجبور اور بے بس اقلیتوں کے لئے ہی ہے، جعفر ایکسپریس کا اغوا،اور اس ٹرین کے بے گناہ مسافروں کے قتل عام کا واقعہ ابھی کل کی بات ہے،پہلگام میں ہندو کس نے مارے یہ تو میں نہیں جانتا،لیکن اس سے قبل قدرت کے انتقام سے کون بچا کہ جو اب بچ سکے گا؟