اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے آج پیر 14 اپریل کو کہا ہے کہ ان کی تنظیم ''قیدیوں کے سنجیدہ تبادلے‘‘ اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اسرائیلی ضمانتوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب حماس قاہرہ میں مصر اور قطر کے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت میں مصروف ہے۔

دوحہ اور قاہرہ کے نمائندے امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے لیے سر گرم ہیں۔ حماس کے ایک سینئر اہلکار طاہر النونو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم قیدیوں کے تبادلے کے ایک سنجیدہ معاہدے، جنگ کے خاتمے، غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور انسانی امداد کے داخلے کے بدلے تمام اسرائیلی اسیروں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

تاہم انہوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ''مسئلہ قیدیوں کی تعداد کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے وعدوں سے مکر رہا ہے، جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو روک رہا ہے اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اس لیے حماس نے قابض (اسرائیل) کو معاہدے کو برقرار رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ضمانتوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

‘‘ دوسری جانب اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کی جانب سے حماس کو ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اس تجویز کے تحت حماس زندہ بچ جانے والے دس یرغمالیوں کو رہا کرے گا، جس کے بدلے میں امریکی ضمانت کے تحت اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت میں داخل ہو گا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جو 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس میں متعدد یرغمالیوں کے تبادلے شامل تھے۔

تاہم یکم مارچ کو پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد جنگ بندی کی نئی کوششیں رک گئی ہیں، جس کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ نونو کا یہ بھی کہنا تھا کہ حماس خود کو غیر مسلح نہیں کرے گی، یہ ایک ایسی اہم شرط جو اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کے لیے رکھی ہے۔

غزہ میں جنگ حماس کےسات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں 1,218 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ عسکریت پسندوں نے 251 کو یرغمال بھی بنا لیا، جن میں سے 58 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں 34 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے اتوار کے روز کہا کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد 18 مارچ سے اب تک کم از کم 1,574 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 50,944 ہو گئی ہے۔

جرمنی کی تنقید کے بعد اسرائیل کا غ‍زہ میں ہسپتال پر حملے کا دفاع

اسرائیل نے پیر کے روز جرمن دفتر خارجہ کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر تنقید کی ہے، جس میں شمالی غزہ میں ایک ہسپتال کی عمارت پر اسرائیلی فوج کے حالیہ فضائی حملے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ حملہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے طور پر استعمال ہونے والی ایک عمارت پرحملہ تھا، نہ کہ ہسپتال کی بنیادوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کا رد عمل جرمنی کے دفتر خارجہ اور سبکدوش ہونے والی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کی اتوار کو شیئر کی گئی اس ایک پوسٹ کا جواب تھا، جس میں کہا گیا تھا، ’’حماس کی ظالمانہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، تاہم شہری مقامات کی حفاظت کے لیے خصوصی ذمہ داری کے ساتھ بین الاقوامی انسانی قانون لاگو ہوتا ہے، ایک ہسپتال کو 20 منٹ سے کم وقت میں کیسے خالی کرایا جائے؟‘‘

اسرائیلی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ جرمن بیان میں''اہم حقائق‘‘ کا فقدان ہے، بشمول یہ کہ اسرائیلی فوج نے پیشگی وارننگ جاری کی تھی اور یہ کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے تاہم کہا کہ ہسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈھانوم گیبریئس نے ایکس پر لکھا، ’’ہسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق ہسپتال سے انخلاء کے دوران دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ایک بچے کی موت ہو گئی۔‘‘ یورپی یونین کی فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالی امداد

یورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کے لیے 1.

6 بلین یورو (1.8 بلین ڈالر) کے تین سالہ پیکج کے ساتھ اپنی مالی امداد میں اضافہ کرے گا۔

یہ بات مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار یورپی کمشنر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتائی۔

بحیرہ روم کے لیے یورپی کمشنر ڈیبراوکا سوئیکا نے کہا کہ مالی امداد فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کے ساتھ مشروط ہو گی، جس پر ناقدین بدعنوانی اور خراب حکمرانی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ سوئیکا نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں کیونکہ اصلاح کیے بغیر، وہ صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے مضبوط اور قابل اعتبار نہیں ہوں گے۔

‘‘

کمشنر کا یہ تبصرہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد مصطفیٰ سمیت سینئر فلسطینی حکام کے درمیان آج پیر کو لکسمبرگ میں ہونے والے پہلے ''اعلیٰ سطحی سیاسی مکالمے‘‘ سے پہلے آیا ہے۔ یورپی یونین فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے اور یورپی یونین کے حکام کو امید ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر حکمران فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ایک دن غزہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لے گی۔

شکور رحیم، اے ایف پی، ڈی پی اے اور روئٹرز کے ساتھ

ادارت: افسر بیگ اعوان، رابعہ بگٹی

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی اتھارٹی جنگ کے خاتمے یورپی یونین جنگ بندی کے جنگ بندی کی حماس کے کے ساتھ کہا کہ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا

قاہرہ: غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کی بحالی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تھا، تاہم کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔

ذرائع کے مطابق، حماس نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی انخلا ہونا چاہیے۔ ادھر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس کو مکمل شکست نہ دی جائے، فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

مصری حکومت نے نئی جنگ بندی تجویز پیش کی جس میں حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ایک حماس رہنما کے مطابق، "ہم صرف اس صورت میں جنگ بندی پر تیار ہیں جب اسرائیل مکمل طور پر جنگ بند کرے اور فوجی انخلا کرے۔ ہتھیار ڈالنے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔"

ذرائع نے مزید بتایا کہ مصر کی تجویز میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کے بدلے غزہ میں خوراک اور پناہ گاہوں کا سامان پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔

حماس کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل کی جارحیت کا مکمل خاتمہ ہو۔

 

متعلقہ مضامین

  • امریکی شہریت رکھنے والے یرغمالی سے متعلق حماس کا اہم بیان سامنے آگیا
  • اسرائیلی بمباری کے بعد امریکی شہریت رکھنے والے یرغمالی، اسکی حفاظت پر مامور افراد سے رابطہ منقطع ہو گیا، حماس
  • اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
  • قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا
  • مصر کی غزہ جنگ بندی کیلیے نئی حیران کن تجویز؛ حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ
  • صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش
  • جنگ کے خاتمے کی ضمانت ملے تو یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے، حماس