والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو اسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
پاکستان کی لیجنڈ اداکارہ و گلوکارہ نور جہاں کی بیٹی نازیہ اعجاز درانی نے والدہ کی نجی زندگی سے متعلق بات کی ہے۔حال ہی میں انہوں نے نجی ٹی وی چینل میں شرکت کی اور دوران انٹرویو والدہ کی زندگی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ والدہ 9 سال کی عمر سے اسٹار تھیں، انہوں نے بہت زیادہ شہرت اور مداحوں کی محبت دیکھی مگر وہ گھر میں ایک عام ماں کی طرح ہوتی تھیں۔نازیہ اعجاز نے کہا کہ والدہ نے ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا اور کھلایا اور ہمارے سب ناز نخرے بھی اٹھائے، بڑی بہن ظِلّ ہما کی شادی کے بعد والدہ نے ہم 3 چھوٹی بہنوں کو بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا تھا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ والدہ اور والد اعجاز درانی میں علیحدگی کے باوجود دوستانہ تعلقات تھے، بورڈنگ اسکول ہماری سالگرہ منانے کے لیے دونوں آیا کرتے تھے۔ والدہ کی وفات سے قبل جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو اس دوران بھی اعجاز درانی ہی والدہ کو اسپتال لے کر گئے تھے۔نازیہ اعجاز درانی نے مزید کہا کہ مجھے کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی والدہ جیسی زندگی جی رہی ہوں، میں بھی سنگل مدر ہوں، علیحدہ رہتی ہوں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال بالکل اس طرح سے کرتی ہوں جیسے نورجہاں ہماری کیا کرتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے، لوگ مجھے کہنے لگے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے بہت زیادہ ملتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں اپنی والدہ کی زندگی ری کری ایٹ کر رہی ہوں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
14 سالہ طالبعلم نے حیران کن کارنامہ انجام دیدیا
14 سالہ طالب علم نے چند سیکنڈوں میں دل کی بیماری کی تشخیص کرنیوالی اے آئی ایپ تیار کرلی ہے۔
ڈلاس، امریکا سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ سدھارتھ نندیالا نے ایک ایسی اسمارٹ فون ایپلیکیشن تیار کی ہے جو صرف 7 سیکنڈ میں دل کی بیماری کی تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ جدید ایپ ”سرکیڈین اے آئی“ (Circadian AI) کہلاتی ہے، جو مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے صرف دل کی آوازوں کو سن کر بیماری کا پتہ لگاتی ہے۔
سدھارتھ نندیالا دنیا کے کم عمر ترین اے آئی سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہیں، جنہیں اوریکل (Oracle) اور اے آر ایم (ARM) جیسے معروف اداروں سے اسناد حاصل ہیں۔
تیار کردہ ایپ جدید الگورتھمز کے ذریعے کام کرتی ہے، جو اسمارٹ فون سے حاصل کی گئی دل کی آوازوں کا تجزیہ کرتی ہے اور چند لمحوں میں تشخیص فراہم کرتی ہے جو صارف کی زندگی بچا سکتی ہے۔
اس ایپ کو امریکا میں 15,000 سے زائد مریضوں جبکہ بھارت میں 700 مریضوں پر آزمایا جا چکا ہے، جہاں اس کی درستگی کی شرح 96 فیصد رہی ہے۔
بھارتی خبر ایجنسی کے مطابق سرکیڈین اے آئی کو گنٹور کے گورنمنٹ جنرل اسپتال میں سخت ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزارا گیا، جہاں اس نے دل کی بیماریوں کی تیز اور درست تشخیص کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔
سدھارتھ نندیالا نے اپنی ایجاد کو حیدرآباد میں ہونے والی گلوبل آرٹیفیشل انٹیلیجنس سمٹ میں پیش کیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی کس طرح کم وسائل رکھنے والے علاقوں میں صحت کی سہولیات تک رسائی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کا مقصد دنیا کی سب سے جدید تشخیصی ٹیکنالوجی بنانا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا آسان اور قابل رسائی ٹول فراہم کرنا تھا جو پسماندہ کمیونٹیز میں جان بچانے میں مدد دے سکے، جہاں فوری تشخیص کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ سدھارتھ نے ٹیکساس کے لاولر مڈل اسکول سے تعلیم مکمل کی اور اب یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ ڈلاس میں کمپیوٹر سائنس میں بیچلر آف سائنس کر رہے ہیں۔