یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
روئٹرز نے چند روز قبل جو رپورٹ دی تھی کہ ایران کی جانب سے غیر ملکیوں اور دوہری شہریت کے حامل افراد کو ہراساں کیے جانے کے بہانے پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ العربیہ نیوز نیٹ ورک نے یورپی یونین کے سفارت کاروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے برسلز میں اپنے ہفتہ وار اجلاس میں ایران کے نو افراد اور اداروں کے خلاف پابندیوں کی منظوری دی ہے۔ روئٹرز نے چند روز قبل جو رپورٹ دی تھی کہ ایران کی جانب سے غیر ملکیوں اور دوہری شہریت کے حامل افراد کو ہراساں کیے جانے کے بہانے پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی پابندیاں فرانس کی تجویز پر لگائی جا رہی ہیں۔ یہ کارروائی ایمینوئل میکرون کے 19 مارچ کو ایران میں زیر حراست فرانسیسی شہری کو رہا کرنے کے اعلان کے بعد کی گئی، ایران میں زیر حراست 34 سالہ فرانسیسی شہری اولیور گروندو کو رہا کر دیا گیا۔ گروندو کو اکتوبر 2022 میں سیاحتی ویزے پر ایران جانے کے دوران جاسوسی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور، صرف پابندیاں اٹھانے پر بات چیت
تہران — ایران نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مسئلے اور اقتصادی پابندیوں کے خاتمے پر اگلا دور بالواسطہ مذاکرات کی صورت میں اگلے ہفتے ہوگا، جس میں عمان بطور ثالث کردار ادا کرے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی نمائندہ اسٹیو وٹکوف کے درمیان حالیہ ملاقات مسقط میں ہوئی، جو 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد پہلی بڑی پیشرفت سمجھی جا رہی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ریاستی ٹی وی پر بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور 19 اپریل کو ہوگا اور اس میں صرف جوہری معاملات اور پابندیاں اٹھانے پر گفتگو ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران امریکہ سے کسی اور موضوع پر بات چیت نہیں کرے گا۔
ایران اور امریکہ نے ان مذاکرات کو "تعمیری" قرار دیا ہے۔ ایرانی میڈیا نے اسے ایران-امریکہ تعلقات میں "فیصلہ کن موڑ" قرار دیا ہے، جبکہ ایرانی کرنسی ریال کی قدر میں بھی بہتری آئی ہے۔
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران خطے میں اسرائیلی جارحیت اور معاشی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے آیت اللہ علی خامنہ ای کو ارسال کردہ خط کے بعد ایران نے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی۔
ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، "سب کچھ تب تک بے معنی ہے جب تک معاہدہ مکمل نہ ہو۔"
ایرانی اخباروں میں بھی ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، تاہم بیشتر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ صرف جوہری مسئلے پر محدود رہے، تو کسی پیشرفت کا امکان ہے۔