آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
مذہبی آزادی اور مذہبی مساوات کے حوالے سے ایک بات تو یہ کی تھی کہ وہ مذہب کو معاشرے سے لاتعلق قرار دیتے ہیں۔ بنیادی اور اصولی جھگڑا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کا معاملہ شخصی ہے اور عقائد، عبادات، اخلاقیات تک مذہب محدود ہے۔ معاشرہ، سوسائٹی، سماج، قانون، عدالت اور سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ہم مذہب کے معاشرتی احکام کی بات کرتے ہیں، مثلاً سیاست میں نمائندگی، یا عورت کی حکمرانی، یا حاکم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کی بات کرتے ہیں، یا ہم تجارت میں سودی بینکاری کی بات کرتے ہیں، یا جب ہم عدالت میں حدود شرعیہ کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، یہ سارے مذہبی حوالے ہیں، تو ان حوالوں کو مغرب نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ معاشرے کے اجتماعی معاملات سوسائٹی نے خود طے کرنے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعے طے کرے یا جو بھی اتھارٹی ہو وہ طے کرے۔ مذہب کی بنیاد پر معاشرے کے اجتماعی معاملات طے نہیں ہونے چاہئیں۔ جبکہ ہمارے تو سارے معاملات ہی مذہب کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ تجارت، معیشت، سیاست، عدالت، سب معاملات میں ہم قرآن و حدیث سے رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ ہمارا مذہبی حوالے سے مغرب کے ساتھ تنازعہ ہے اور ہم جہاں بھی مذہب کے حوالے سے بات کریں گے تو ان کا اعتراض ہوگا کہ یہاں مذہب کا حوالہ درست نہیں ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال ذکر کرتا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے ہیں جن سے نفسیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی دو سال پہلے کی بات ہے کہ امریکہ کی ایک لوکل کونسل میں ایک مسلمان رکن بن گیا تو اس نے کہا میں تو کارروائی کا آغاز بسم اللہ سے کروں گا، قرآن پاک کی تلاوت سے کروں گا۔ دوسروں نے کہا کہ ہمارا بھی حق ہے کہ ہم بائبل سے اور گاڈ سے اور جیسس سے آغاز کیا کریں گے۔ اس پر اتفاق رائے سے فیصلہ ہو گیا کہ ٹھیک ہے، جس دن یہ شروع کریں گے بائبل سے شروع کریں گے، اور جس دن مسلمان شروع کریں گے وہ قرآن کی تلاوت سے شروع کریں گے۔ لیکن یہ فیصلہ چیلنج ہو گیا کہ یہ چونکہ مذہب کے حوالے سے ہے، اس لیے یہ ملکی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ ان کی حساسیت کی بات کر رہا ہوں کہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں ایک چھوٹی سی بات بھی ان کے ہاں قابل برداشت نہیں ہے جو مذہب کے حوالے سے کی جائے۔ یہ مغرب کے ساتھ ہمارا دوسرا بنیادی تنازعہ ہے۔
ہمارا تیسرا تنازعہ آزادی رائے کے حوالے سے ہے۔ آزادئ رائے کی حدود کیا ہیں اور اس کا کہاں کہاں کیا کیا دخل ہے؟ انسانی حقوق کے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے قائم کرنے کا، رائے تک رسائی حاصل کرنے کا، رائے کو لوگوں تک پہنچانے کا، رائے کے لیے لابنگ کرنے کا، اور اس کی لوگوں کے سامنے وضاحت کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن رائے کے حق سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ ان کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس آدمی کی رائے ٹھیک نہیں ہے، لیکن یہ بات کہ اسے رائے دینے کا حق نہیں ہے، یہ بات آپ کسی بھی معاملے میں نہیں کہہ سکتے۔ یہ آزادئ رائے کا ایک مستقل ٹائٹل ہے۔ اس پر ہمارا بڑا تنازعہ ہوتا ہے۔
جب ہم مذہب کی توہین، انبیاء کرامؑ، مذہبی کتابوں، یا مذہبی شخصیات کی توہین کو جرم قرار دیتے ہیں اور ان پر سزا کی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ رائے سے اختلاف کریں، لیکن کسی کو رائے کے حق سے محروم نہ کریں۔ اگر کسی کی رائے قرآن کے خلاف ہو گئی ہے تو اس کی اپنی رائے ہے، اسے اس کا اظہار کرنے دیں۔ اگر کسی کی رائے اللہ کے خلاف یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو گئی ہے تو اسے کہنے دیں۔ آپ کسی کو رائے اختیار کرنے سے، رائے کا اظہار کرنے سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ ہے بنیادی تنازعہ۔ اس پر جو ہمارے پریکٹیکل معاملات اور عملی مسائل ہوئے ہیں، ان میں سے وہ مقدمات جو پچھلے دس پندرہ سال میں میرے سامنے ہوئے، میں مغرب کا موقف سمجھانے کے لیے دو تین بیان کر دیتا ہوں۔
آپ جانتے ہیں کہ سلمان رشدی انڈین شہری ہے، اب بھی زندہ ہے، برطانیہ میں رہتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے۔ اس نے ایک کتاب لکھی ’’دی سیٹینک ورسز‘‘ (شیطانی آیات) اس کا اردو ترجمہ بھی ہوا۔ یہ ناول طرز کی کتاب ہے جس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کو، وحی کے نزول کو، جبریلؑ کی آمد کے واقعہ کو ناول کے انداز میں بیان کیا ہے۔ اور اس میں اس نے جناب نبی کریمؐ، حضرت جبریلؑ کے حوالے سے بھی اور قرآنی آیات کے حوالے سے بھی بہت توہین آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ آپ اس کتاب کے ٹائٹل ’’شیطانی آیات ‘‘ سے ہی اس کا اندازہ کر لیں۔ لہجہ اس قدر توہین آمیز ہے کہ میں اپنی بات آپ سے کرتا ہوں کہ میں اس کے اردو ترجمے کا انتظار کرتا رہا۔ جب مجھے میسر آیا تو میں تین چار صفحے سے زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ اسے پڑھنے کی میری ہمت نہیں پڑی، حالانکہ میں بڑا ٹھنڈا بندہ شمار ہوتا ہوں کہ سنتا بھی ہوں اور برداشت کرتا ہوں۔
چنانچہ اس پر احتجاج ہوا، لندن میں بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوا، پاکستان میں بھی ہوا، اسلام آباد میں تو فوج اور مظاہرین کی لڑائی ہوئی۔ مطالبہ یہ تھا کہ کتاب پر پابندی لگائی جائے اور اس کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی بات کرتے ہیں شروع کریں گے کے حوالے سے کی بات کر نہیں ہے کے خلاف رائے کے مذہب کے کرنے کا اور اس ہیں کہ
پڑھیں:
بنگال کے تشدد زدہ علاقوں میں فورسز کی مزید پانچ کمپنیاں تعینات، 150 افراد گرفتار
بی جے پی نے کہا کہ ممتا بنرجی انتہا پسند اور جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے اپنی حکومت چلا رہی ہیں اور انکی یرغمال بن چکی ہیں، اسلئے وہ بے بس ہے اور ایسے آئین مخالف بیانات دے رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف پُرتشدد مظاہروں میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ تشدد کے معاملے میں اب تک 150 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سوتی اور شمشیر گنج جیسے علاقوں میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے بیچ کلکتہ ہائی کورٹ نے متاثرہ علاقوں میں مرکزی نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد تشدد زدہ علاقوں میں تقریباً 300 بی ایس ایف اہلکار تعینات کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت کی درخواست پر بی ایس ایف کے اضافی جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ مرکزی داخلہ سکریٹری گووند موہن نے ہفتہ کو مغربی بنگال کے مرشد آباد میں بی ایس ایف اہلکاروں کی پانچ اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا۔
وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق مرکزی داخلہ سکریٹری نے تشدد کے سلسلے میں مغربی بنگال کے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی۔ انہوں نے ان سے کہا کہ وہ صورتحال پر گہری نظر رکھیں اور جلد از جلد حالات معمول پر لانے کے لئے مناسب اقدامات کریں۔ وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ مرکزی داخلہ سکریٹری گووند موہن کے ساتھ بات چیت میں مغربی بنگال کے ڈی جی پی نے بتایا کہ صورتحال کشیدہ لیکن قابو میں ہے اور اس پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔ ڈی جی پی نے مزید کہا کہ وہ مقامی طور پر تعینات بی ایس ایف سے مدد لے رہے ہیں اور اب تک 150 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہوم سکریٹری نے حکام کو بتایا کہ مرکز صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سدھانشو ترویدی نے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے اس بیان پر تنقید کی کہ ان کی حکومت وقف ترمیمی قانون کو لاگو نہیں کرے گی۔ بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ممتا بنرجی کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ترویدی نے اندور میں نامہ نگاروں سے کہا کہ اگر ممتا بنرجی مغربی بنگال میں وقف ایکٹ کو لاگو کرنے سے انکار کر رہی ہیں، تو یہ واضح ہے کہ وہ امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کا کوئی احترام نہیں کرتی ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان نے الزام لگایا کہ وہ انتہا پسند اور جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے اپنی حکومت چلا رہی ہیں اور ان کی یرغمال بن چکی ہیں، اسلئے وہ بے بس ہے اور ایسے آئین مخالف بیانات دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ تمام آئینی طریقہ کار کے بعد اور تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کے آئینی نظام میں ملک کی کسی بھی ریاست کی قانون ساز اسمبلی مودی حکومت کے منظور کردہ قانون کو نافذ کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔