دفعہ370 کی بحالی تک کوئی بھی الزام یامقدمہ مجھے خاموش نہیں کرا سکتا، آغا روح اللہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
انہوں نے کہا کہ بھارتی اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے ان اور ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے خلاف اراضی معاوضے سے متعلق جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض ایک انتقامی کارروائی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور سری نگر سے رکن بھارتی پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ دفعہ 370 بحال ہونے تک کوئی بھی الزام یا مقدمہ انہیں خاموش نہیں کرا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے ان اور ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے خلاف اراضی معاوضے سے متعلق جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض ایک انتقامی کارروائی ہے۔ ذرائع کے مطابق آغا روح اللہ نے بڈگام میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف دائر کی گئی چارج شیٹ انہیں دفعہ 370 کی بحالی، اقلیتوں اور مسلمانوں کے حقوق اور وقف ایکٹ جیسے مسائل کے بارے میں بولنے سے روکنے کی ایک بونڈی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اے سی بی جیسی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے اس چارج شیٹ کے ذریعے انہیں ڈرانا دھمکانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خاموش نہیں کرایا جا سکتا اور نہ ڈرایا جا سکتا ہے۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ میں اس دن خاموش ہوں گا جب دفعہ370 بحال ہو جائے گا، مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف مظالم بند ہو جائیں گے اور جموں و کشمیر کے آئینی حقوق بحال ہو جائیں گے۔ روح اللہ نے کہا کہ ان کے دادا آغا سید مصطفیٰ کے پاس رکھ ارت بڈگام میں 90 کنال اراضی تھی جو بعد ازاں حکومت نے ڈل جھیل کے مکینوں کی بحالی کے لیے لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس زمین کا معاوضہ ہمیں چالیس ہزار فی کنال ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ہمیں اس سے کم دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو گزرے بیس برس ہو گئے اور ان 20 برسوں میں کسی نے بھی ارضی کے لین دین بارے میں کوئی الزامات نہیں لگائے اور اب ایک دم سے جو چارچ شیٹ سامنے آئی ہے اس کا واحد مقصد محض مجھے ڈرانا، دھمکانا اورحق بات کرنے سے روکنا ہے۔
روح اللہ نے جموں و کشمیر اسمبلی میں وقف (ترمیمی) ایکٹ کے بارے میں قرارداد نہ لانے پر اپنی پارٹی نیشنل کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسمبلی اس ایکٹ پر بحث کر سکتی تھی اور اس پر قرارداد پاس کر سکتی تھی۔ بھارتی اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی) نے روح اللہ، ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں اور 16 دیگر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے خلاف زمین کے معاوضے میں دھوکہ دہی اور ریونیو ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ کے حوالے سے چارج شیٹ داخل کی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ آغا روح اللہ روح اللہ نے رشتہ داروں چارج شیٹ اے سی بی کے خلاف اور ان
پڑھیں:
پی ایس ایل کی فریاد
’’میں ہوں پی ایس ایل نام تو سنا ہوگا‘‘ اگر آپ پاکستان، بھارت یا کسی بھی ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کرکٹ کے مداح موجود ہیں تو مجھے نہ پہچاننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ میں سے بہت سے لوگ اس وقت چند سال کے بچے ہوں گے جب انکل ذکا اشرف نے سوچا کہ ملک میں کوئی لیگ کرانی چاہیے۔
کیونکہ بھارت اپنی آئی پی ایل کے ذریعے غالب ہوتا جا رہا ہے، انھوں نے کروڑوں روپے خرچ کیے، لوگو بنوایا، باہر سے لوگ بھی بلائے پھر بھی منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا، یوں میری فائل ریکارڈ روم میں جمع ہو کر گرد میں چھپ گئی۔
پھر انکل نجم سیٹھی آئے، گوکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے انھوں نے چیئرمین کا لیبل خود پر نہیں لگوایا لیکن سب جانتے تھے کہ وہ چیئرمین شہریار خان انکل سے بھی زیادہ طاقتور تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کرکٹ کی کوئی سمجھ نہیں وہ کہاں کوئی لیگ کروا سکیں گے۔
لیکن انھوں نے سب کو غلط ثابت کر دکھایا، بورڈ کے لوگ بھی مخالفت کرتے رہے لیکن یہاں سیٹھی انکل سلمان خان بن گئے کہ ’’ایک بار میں نے کمٹمنٹ کرلی تو پھر اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا‘‘ ٹیمیں فروخت کرنے میں انھیں بہت زیادہ مشکلات ہوئیں لیکن ندیم عمر، رانا برادرز (عاطف و ثمین)،علی نقوی، جاوید آفریدی اور سلمان اقبال نے مجھ پر یقین کیا اور اپنا قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر دنیا میں متعارف کرایا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے حالات ایسے نہ تھے کہ غیرملکی کرکٹرز کو یہاں مدعو کیا جا سکتا لہذا سیٹھی انکل نے دبئی میں مقابلوں کا انعقاد کرا دیا، ممکنہ مالی نقصان کی وجہ سے جو لوگ پہلے ہی سال مجھے دوبارہ فائلز کی زینت بنوانے کا خواب دیکھ رہے تھے انھیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ میری وجہ سے بورڈ کو آمدنی ہوئی، فرنچائزز کو بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور ملی۔
اگلے سال فائنل لاہور میں ہوا جس میں ندیم انکل اور جاوید انکل کا بھی بڑا کردار تھا جنھوں نے اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان آنے پر قائل کیا، آپ کو شاید میرے حوالے سے ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ بننے والی فیلنگ آئے لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس لانے میں میرا بڑا کردار ہے، اسی وجہ سے کھلاڑیوں کا خوف ختم ہوا اور وہ لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کو بھلا کر دوبارہ پاکستان آنے لگے۔
اب وہ وقت آ چکا جب پاکستان نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبان کا اعزاز پایا اور ان دنوں ویمنز ورلڈکپ کوالیفائر جاری ہے، میری وجہ سے ہی ملک کو نیا ٹیلنٹ بھی ملا، زیادہ دور کیوں جائیں آپ بنگلہ دیش یا سری لنکا میں دیکھ لیں وہاں کی لیگز کا کیا حال ہے۔
انگلینڈ جیسا ملک دی ہنڈرز کو اسٹیبلش نہیں کر سکا، میں نے خود کو کبھی آئی پی ایل جیسا ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا لیکن آپ کم بھی نہ سمجھیں، مجھ سے پہلے پی سی بی کا انحصار صرف آئی سی سی سے ملنے والی سالانہ رقم سے ہوتا تھا، براڈ کاسٹ رائٹس وغیرہ سے بھی اخراجات میں آسانی ہوتی تھی لیکن میری وجہ سے اب اسے دنیا کے چند امیربورڈز میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اب آئی سی سی کے بعد آمدنی کا بڑا ذریعہ میں ہوں، ماں باپ اس اولاد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو گھر چلاتی ہے لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہے، چند برسوں سے میں نے خود کو تنہا محسوس کیا، میرے وہ انکلز جنھیں میں نے سیلیبریٹی بنوایا آج وہ مجھے خوش نظر نہیں آتے تو افسوس سا ہوتا ہے۔
پھل دینے والے درخت کو کیا کوئی کاٹتا ہے؟ مگر مجھے نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اپنے ہی میری جڑیں کاٹنے میں لگے ہیں، دنیا میرے گن گاتی ہیں لیکن کچھ اپنے ہی مجھ میں خامیاں تلاش کرنے میں مگن ہیں، کیا وہ ایسا کر کے کچھ فائدہ حاصل کر سکیں گے؟
طعنے سہہ کر اگر میری حالت خراب ہوئی تو پھر وہ کیا کریں گے؟ اگر میں آپ سے ملک کی چند بڑی کمپنیز کے مالکان کے نام پوچھوں تو شاید آپ نہ بتا سکیں لیکن پی ایس ایل فرنچائز مالکان کے نام بچے بچے کو پتا ہیں،5 انکلز جب تک رہے مسئلہ نہ تھا، اصل قربانی انھوں نے ہی دی کیونکہ اس وقت کسی کو نہیں پتا تھا کہ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں لیکن چھٹے کے آنے سے مسائل ہوئے۔
پہلے جو آئے انھوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے کر جان چھڑا لی، پھر جو نئے آئے وہ اب تک نقصانات کا رونا رو رہے ہیں، حالانکہ کسی نے ان سے زبردستی تو نہیں کہا تھا کہ پی ایس ایل میں آئیں، اب بھی وہ چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن نہیں انھیں صرف مجھے ہی برا بھلا کہنا ہے، مجھے پتا ہے مسائل ہیں، ہر ٹیم کی الگ فیس مگر یکساں منافع، پر پیچئٹی رائٹس (دائمی ملکیت) نہ ملنا، لاہور قلندرز یا کوئی اور ٹیم اگر گراؤنڈ بھر لے تو بھی گیٹ منی سب میں یکساں تقسیم ہونا یہ سب بڑے مسائل ہیں جنھیں حل ہونا چاہیے۔
کیا کروں سیٹھی انکل اور ان کے ساتھ ایک صاحب ہوا کرتے تھے سلمان سرور بٹ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے، انھیں ایسا ماڈل نہیں بنانا چاہیے تھا، اب ویلیویشن کے بعد فیس مزید بڑھ جائے گی، ملتان سلطانز ایک ارب 8کروڑ فیس دیتے ہیں، باقی اخراجات الگ ہیں۔
اسی لیے شاید اب مجھے برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکال رہے ہیں، اگر مجھ سے اتنی نفرت ہے تو چھوڑدیں، کئی اور لوگ ملکی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ آ جائیں گے، علی بھائی میٹنگ میں تو مائیک میوٹ کر کے بیٹھے رہتے تھے اب میڈیا پر باتیں کر رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جتنی منفی باتیں کریں گے اتنی ہی ویڈیو وائرل ہوگی، آپ یوٹیوب پردیکھ لیں اچھی باتوں پر کتنے ویوز آتے ہیں،محسن نقوی انکل کو چاہیے کہ دیکھیں کون مجھے بدنام کر رہا ہے،اسے سمجھائیں اور اگر وہ نہ مانے تو کہیں اتنا دکھ ہے تو جاؤ ہم کسی اورکو لے آئیں گے۔
سلمان نصیر انکل نے میری دیکھ بھال اچھے انداز میں شروع تو کی ہے لیکن سب کام وہ اکیلے نہیں کر سکتے، ان کو ٹیم بنانی چاہیے،آئی پی ایل کے مقابلے میں پی ایس ایل کی مسابقتی کرکٹ کی سب بناتیں کرتے ہیں تو مجھے مل کر اور بڑا کیوں نہیں بناتے، آپ جتنا میرا خیال رکھیں گے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
اگر مجھے بھی بنگلہ دیشی لیگ جیسا بنانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے جو کرنا ہے وہ کریں لیکن مجھے یقین ہے آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا، لہذا نہ صرف مجھے بلکہ پاکستانی کرکٹ کو بھی مضبوط بنائیں، مجھے یقین ہے آپ سب ایسا ہی کریں گے، کیوں انکلز۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)