Express News:
2025-04-15@09:02:59 GMT

بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

امریکا میں کینسس شہر کافی بڑا ہے۔ آبادی تقریباً پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن یعنی مرکزی ایریا میں ایک Dinar ریسٹورنٹ ہے۔ کھانے پینے کی عام سی جگہ۔ اس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی خاص بات نہیں ، سادہ سا امریکی فرنیچر‘ درمیانے درجے کا سستا کھانا اور بے ہنگم موسیقی ۔ کھلے ہوئے تقریباً چار برس ہو چکے تھے۔ اخراجات وغیرہ ڈال کر مالک کو برائے نام منافع ملتا تھا۔ ارادہ تھا کہ اس ریسٹورنٹ کو بند کر کے کوئی نیا کام شروع کر دے۔ بہر حال‘ زندگی تھی اور بس چلے جا رہی تھی۔

اس ریسٹورنٹ میں ایک ویٹرس تھی، جس کا نام جیسی ہوپر تھا۔ محنتی اور بااخلاق لڑکی تھی لیکن معقول وسائل نہ ہونے کی بدولت زندگی بہت کٹھن تھی۔ مگر تنگدستی نے اس کے مزاج پر کوئی منفی اثر نہ ڈالا تھا۔ خوش مزاجی سے کام کرنا اس کی سرشت میں تھا۔ علی الصبح اٹھتی تھی۔ چھوٹے سے فلیٹ سے پیدل ریسٹورنٹ آتی تھی،کرسیوں اور میزوں کی بھرپور صفائی کرتی تھی۔ ریسٹورنٹ پورے سات بجے کھل جاتا تھا۔صبح کے وقت بہت کم لوگ ہی آتے تھے ۔ البتہ لنچ پر بہت رش ہو جاتا تھا۔ ایک اسی طرح کی صبح کو‘ ایک آٹھ نو سال کا بچہ‘ اپنا اسکول بیگ کمر پر لادے‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ۔ خاموشی سے کونے کی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔

کھانے کا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ جیسی نے اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھا۔ بچے نے آہستہ آہستہ پانی پیا ۔ آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر شائستگی سے اٹھ کر چلا گیا۔ پانی کا تو خیر کوئی بل نہیں تھا۔ مگر جیسی کو یہ بات عجیب لگی۔ اب ہونے یہ لگا کہ وہ بچہ سات بج کر پندرہ منٹ پر‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا تھا۔ جیسی اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی پیتا تھا اور آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر بیگ اٹھا کر چلا جاتا تھا۔ وہ اسکول یونیفارم میں ہوتا تھا اور جوتے بھی صاف دکھائی دیتے تھے۔ حلیہ سے وہ کوئی فقیر یا ہوم لیس معلوم نہیں پڑتا تھا۔ سات آٹھ دن ‘ اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن بچہ آیا۔ حسب معمول ‘ جیسی نے پانی کا گلاس سامنے رکا ۔ پھر کچن میں چلی گئی۔ وہاں سے اس نے پین کیک کا ناشتہ بنوایا۔ اور آرام سے بچے کے سامنے رکھ دیا۔

کہنے لگی، آج کچن میں کک نے ناشتہ زیادہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اسے ضایع کرنے کے بجائے ‘ وہ اس کے سامنے رکھ رہی ہے۔ اور اس کا کوئی بل نہیں ہو گا۔ جیسی اور بچے کی آنکھیں چند سیکنڈ کے لیے ٹکرائیں تو اس معصوم کی آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔ ناشتہ رکھ کر جیسی چلی گئی۔ دانستہ طور پر بچے کو بالکل نہیں دیکھا۔ بچے نے آرام سے ناشتہ کیا۔ اور مقرر وقت پر اٹھ کر چلا گیا۔ یہ سلسلہ دو تین دن چلتا رہا۔ بچہ ‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں آتا تھا۔ جیسی اس کے لیے پین کیک کا ناشتہ بناتی تھی۔ اور پھر وہ کھا کر حد درجہ تہذیب سے واپس چلا جاتا تھا۔ ریسٹورنٹ کا منیجر اس سارے واقعے کو روزانہ دیکھتا تھا۔ تیسرے دن جیسی کو بلایا ۔ کہا کہ یہ ہوٹل کوئی یتیم خانہ نہیں ہے۔ جہاں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہو۔

تم کس طرح ‘بچے کو فری ناشتہ کرا رہی ہو۔ جیسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک دم‘ منیجر سے کہا‘ ناشتہ کے پیسے وہ ٹپ سے ادا کرے گی۔ اس سے ریسٹورنٹ کو کوئی مالی نقصان نہیں ہو گا۔ منیجر حیران رہ گیا۔ کیونکہ جیسی کے اپنے مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ وہ ایک سستے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ بہرحال منیجر نے جیسی کو اجازت دے دی۔ کہ وہ بچے کو ناشتہ بنا کر دے اور پیسے اس کی ٹپ میں سے کاٹ لیے جائیں گے۔ منیجر کو فکر یہ تھی کہ ہوٹل بس گزارے لائق منافع بنارہا ہے۔ لہٰذا جیسی قطعاً زیادہ عرصہ ‘ مفت ناشتہ‘ اپنی ٹپ میں سے ادا نہیں کر سکتی۔ مگر منیجر غلط سوچ رہا تھا۔

پورے تین ماہ‘ یہ واقعہ ‘ مسلسل ‘ روز کی بنیاد پر ہوتا رہا۔ بچہ ٹھیک سوا سات بجے آتا اور آٹھ بجنے سے پہلے اٹھ کر چلا جاتا۔ جیسی کو اس معصوم لڑکے کو ناشتہ کرانے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ پھر یکدم یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ٹھیک نوے دن کے بعد‘ بچے نے آنا بند کر دیا۔ جیسی‘ سات بجے حسب معمول اس کا انتظار کرتی ۔ اس کی مخصوص ‘ کونے والی میز پر پانی رکھتی۔ اور تھوڑا سا ناشتہ بھی بنا کر رکھ دیتی۔ مگر ٹیبل خالی رہتی۔ منیجر اس کا مذاق اڑاتا کہ وہ بچہ دراصل ایک فقیر تھا جو تمہیں بے وقوف بنا کر چلا گیا۔ خیر جیسی کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اسی طرح بچے کے لیے ٹیل مخصوص رکھتی۔ ایک دن کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ چار کالی گاڑیاں ہوٹل کے سامنے رکیں ۔ ان پر امریکی حکومت کی سرکاری نمبر پلیٹیں لگی ہوئی تھیں۔

ان میں سے دس بارہ فوجی باہر نکلے ۔ اورہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سارے گاہک ‘ انھیں غور سے دیکھ رہے تھے۔ ایک سینئر افسر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے سینے پر متعدد تمغے لگے ہوئے تھے۔ حد درجہ شائستگی سے منیجر سے پوچھا کہ جیسی کون ہے؟ جیسی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ اس کا گلہ خشک ہو گیا۔ ان فوجیوں کا اس سے کیا کام ہے؟ آفیسر نے اپنا تعارف کرایا کہ میں امریکی اسپیشل فورسز کا کرنل ہوں۔ میرا نام رابرٹ کنڈل ہے۔ جیسی اس کے سامنے گئی۔ کرنل نے اسے غور سے دیکھا۔ اور ایک خط ہاتھ میں تھما دیا۔ کہنے لگا کہ یہ خط‘ سارجنٹ ڈیوڈ نے افغانستان سے لکھا ہے۔ اور وہ ایڈم کا والد ہے۔

افغانستان کی جنگ میں ڈیوڈ مارا گیا۔ اورمرنے سے پہلے ‘ اس نے یہ خط اپنے کمانڈنگ افسر کے ہاتھ میں دیا۔ کہ اگر میں مارا جاؤں تو یہ مراسلہ‘ کینس شہر میں‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں جیسی نامی ویٹرس کو دے دیں۔ جیسی کے سامنے کرنل نے خط پڑھ کر سنایا۔ درج تھا ۔ میں ایڈم کا والد ہوں۔ اور امریکی اسپیشل سروسز گروپ میں کام کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں جنگ پر روانہ ہوا۔ تو میری بیوی ‘ ایڈم کو چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس کے پاس حد درجہ محدود پیسے تھے۔ وہ صبح اسکول جانے سے پہلے‘ آپ کے پاس ناشتہ کرتا تھا ۔ اور رات کو بس روکھی سوکھی کھا کر سو جاتا تھا۔ ایڈم نے چند دن پہلے ‘ یہ سب کچھ بتایا ۔ اب وہ اپنے داد دادی کے پاس کیلیفورنیا چلا گیا ہے۔ جیسی ! میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خط پڑھ کر جیسی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ریسٹورنٹ میں موجود فوجیوں نے جیسی کو تعظیمی سلیوٹ کیا۔ اور واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ یہ قصہ پوری دنیا میں وائرل ہو گیا۔

اب ہوا یہ ‘ کہ امریکی فوج کا جو بھی افسر یا سپاہی ‘ کینسس شہر کے قریب سے گزرتا۔ وہ جیسی کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے ضرور آتا۔ شہر میں جتنے بھی ریٹائر فوجی تھے۔ وہ تمام اب اس جگہ ناشتہ اور کھانا کھانے آتے تھے۔ ریسٹورنٹ کی آمدنی پہلے سے دگنی ہو گئی۔ جیسی معمول کے مطابق کام کرتی رہی۔ ایک دن‘ ریاست کا گورنر آیا۔ اس نے جیسی کو بلایا۔ اس کی مہربانی کا شکریہ ادا کیا ۔ اور اس کے نام کا ایک سکہ اور خط ‘ اس کے حوالے کیا۔ ریسٹورنٹ گاہکوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب نے کھڑے ہو کر جیسی کے احترام میں تالیاں بجائیں ۔ گورنر کے عملے نے اسے سلیوٹ کیا۔ اور اسے ریاست کی بیٹی قرار دے دیا۔ ہوٹل کے مالک نے ریسٹورنٹ کا نام ہی تبدیل کر ڈالا ۔ نیا بورڈ لگایا کہ یہ جیسی کا ریسٹورنٹ ہے۔ جیسی پورے شہر بلکہ ملک میں بے غرض نیکی اور مہربانی کا نشان بن گئی۔ معاشرے‘ ریاستی اداروں‘ شہریوں اور نظام نے جیسی کو ایک خوبصورت مثال قرار دے دیا۔ وہ ایک دیومالائی کردار بن گئی۔

گزارش کرنے کا مقصد بالکل سادہ سا ہے۔ بے غرض نیکی کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمارے معاشرے میں‘ اکثر لوگ اچھے کاموں کو اپنی شخصیت کے مثبت پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی جائیداد میں سے ایک ٹکہ بھی عام لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ نہیں کرتے۔ مگر چندہ مانگ کر اسکول‘ کالج اور درسگاہیں بناتے ہیں۔ لوگوں میں دیوتا بننے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ ان کے نیک کام اچھے لگتے ہیں مگر وہ صرف اپنے قد کو بلند دکھانے میں کام آتے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں ‘ دوسروں کو چھوٹا دکھانے کی شعوری کوشش ہوتی ہے۔

طالب علم اس طرح کے کج ادا لوگوں سے کوسوں دور رہتا ہے۔ ذہن میں صرف ایک خیال پختہ ہے۔ کہ اصل نیکی کسی بھی صلہ اور تمنا کے بغیر ہوتی ہے اور بے غرض نیکی کبھی بھی ضایع نہیں جاتی۔ جیسی کینسس شہر کی پہچان بن چکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت لوگ نیکی کو بے غرض نہیں بلکہ غرض سے ادا کرتے ہیں۔ مشورہ ہے کہ آپ خود‘ اپنی مرضی سے چھوٹے یا بڑے فلاحی کام کریں۔ ادنیٰ سماجی قزاقوں سے دور رہیں۔ یقین فرمائیے۔ قدرت خود آپ کا ہاتھ پکڑ کر‘ آپ کے لیے عزت کے راستے بنائے گی!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریسٹورنٹ میں اس کے سامنے بے غرض نیکی نے جیسی کو جاتا تھا پانی کا چلا گیا جیسی کے کام کر ہو گیا کے پاس کے لیے کر چلا

پڑھیں:

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون کی بیٹری جلد ختم ہو جاتی تھی‘ میں چارج کرتا تھا اور یہ گھنٹہ بھر میں دوبارہ ختم ہو جاتی تھی اور میں اٹھ کر چارجر کی تلاش شروع کر دیتا تھا‘ میں تنگ آکر فون مکینک کے پاس چلا گیا‘ اس نے فون دیکھا اور کہا ’’سر بیٹری کیوں نہ ختم ہو آپ نے سوا سو پیجز کھولے ہوئے ہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’آپ ایپس اور پیجز کھولنے کے بعد انھیں بند نہیں کرتے‘ یہ چلتے رہتے ہیں اور آپ کے فون کی 81 فیصد انرجی کھا جاتے ہیں یوں آپ کے پاس صرف 19فیصد انرجی بچ جاتی ہے اور یہ تین چار کالز کے بعد ختم ہو جاتی ہے‘‘ اس نے اس کے بعد تمام غیر ضروری ایپس اور پیجز ڈیلیٹ کر دیے‘ میری بیٹری اس کے بعد کبھی ختم نہیں ہوئی‘ میں رات کو فون چارج کرتا ہوں اور یہ سارا دن چلتا رہتا ہے۔

میں نے اس کے بعد اپنی زندگی کا جائزہ لیا تو پتا چلا جاپان کے ہیرو اور مجھ میں ایپس کا فرق ہے‘ میری زندگی میں اسٹریس کی بے شمار ایپس کھلی ہوئی ہیں‘ میری توانائی کا زیادہ تر حصہ یہ کھا جاتی ہیں اور یوں میرے پاس کام کے لیے بہت معمولی انرجی بچتی ہے مثلاً میں ڈرائیو نہیں کرتا‘ کیوں؟کیوں کہ شہر کی ٹریفک بے ہنگم ہے‘ دائیں بائیں دونوں جانب سے گاڑیاں نکلتی ہیں۔

 اووراسپیڈنگ معمول ہے‘ سگنل توڑنا اور ہارن بجانا ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اور کس وقت کس چوک پر ٹریفک بند ہو جائے یا کس راستے پر کس وقت کون کنٹینر لگا دے یا کون کس وقت کس شاہراہ پر لاش رکھ کر اسے بند کر دے یا پھر کون کس وقت گاڑیوں پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دے کوئی نہیں جانتا لہٰذا میرے ذہن میں ہر وقت ٹریفک کے خوف کی ایپ کھلی رہتی ہے‘ دوسرا مجھے خطرہ ہوتا ہے میں جہاں جاؤں گا مجھے وہاں پارکنگ نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو وہاں میری گاڑی محفوظ نہیں ہو گی‘ کوئی نہ کوئی گاڑی چوری کر لے گا یا کھڑی گاڑی کو ٹھوک جائے گا یا پھر اسے چھیل جائے گاچناں چہ میں ڈرائیور کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتا لیکن یہاں میرے ذہن میں ڈرائیور کی ایک ایپ بھی موجود ہے۔

 میرا ڈرائیور میری گاڑی وقت پر صاف کرے گا یا نہیں‘ یہ اس کا آئل بھی ٹھیک تبدیل کرے گا یا نہیں اور یہ کہیں کھڑی گاڑی کا اے سی چلا کر تو نہیں سویا رہے گا یا یہ اسے لاوارث چھوڑ کر چائے پینے یا دہی بھلے کھانے تو نہیں چلا جائے گا‘ میرے ذہن میں ہر وقت یہ ایپ بھی کھلی رہتی ہے اور یہ میری انرجی کا بہت سا حصہ بھی ضایع کرتی رہتی ہے جب کہ میرے مقابلے میں جاپان کے ہیرو کی زندگی میں یہ ایپ نہیں ہے‘ یہ اپنے فلیٹ سے چل کر دو منٹ میں ٹرین اسٹیشن پہنچ جاتا ہے‘ فون ٹچ کر کے پلیٹ فارم پر آ جاتا ہے۔

 وقت پر ٹرین آتی ہے اور یہ مزے سے اس میں سوار ہو کر وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور اگر کبھی اسے اپنی گاڑی پر دفتر جانا پڑے تو اسے سارا راستہ رواں ٹریفک ملتی ہے‘ کوئی سڑک بند نہیں ہوتی‘ کسی چوک میں کنٹینر نہیں ہوتا‘ کوئی شخص رش ڈرائیونگ نہیں کرتا اور یہ جب دفتر پہنچتا ہے تو وہاں پارکنگ بھی ہوتی ہے اور اس پارکنگ میں اس کی گاڑی سو فیصد محفوظ ہوتی ہے‘ اس پر سکریچ پڑتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی ٹھوک جاتا ہے اور اگر کبھی خدانخواستہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو انشورنس کمپنی اسے گاڑی ٹھیک کرا دیتی ہے یا پھر اسے نئی گاڑی دے دیتی ہے اور یوں اس کا نقصان‘ نقصان نہیں رہتا چناں چہ اس کے ذہن میں ’’میری گاڑی کا کیا بنے گا؟‘‘ کی ایپ کبھی نہیں کھلتی اور یہ اپنی ساری بیٹری کام پر خرچ کرتا ہے۔

ہیرو کی زندگی بے شمار دوسری ایپس سے بھی آزاد ہے‘ مثلاً اس کے ذہن کے کسی کونے میں ذرا سا بھی یہ خیال نہیں آتا میں جو دودھ پی رہا ہوں یہ ناخالص ہو سکتا ہے‘ یہ کیمیکل سے بنا ہو گا یا اس میں جوہڑ کا گندا پانی ہوگا‘ اس کی میز پر رکھا منرل واٹر منرل نہیں ہے‘ اس کا شہد اصلی نہیں ہوگا‘ اس کی دوائیں جعلی ہوں گی یا ڈاکٹر اس کا غلط گردہ نکال دے گا یا ڈاکٹر کی ڈگری اصلی نہیں ہو گی یا یہ اسے سٹیرائیڈ دے دے گا یا بلاوجہ دس دوائیں لکھ دے گا یا کیمسٹ کی دکان سے اسے جعلی یا ایکسپائرڈ دوا ملے گی۔یہ سوچ بھی نہیں سکتا اس کی براؤن بریڈ اصل میں وائیٹ ہے اور اسے رنگ ڈال کر براؤن کیا ہو گا‘ اس کی چائے‘ چائے نہیں کیکر کی چھال کا برادہ ہے‘ اس کا  بسکٹ پرانا ہے اور اس میں سے کیڑے نکل آئیں گے۔

 یہ فائیو اسٹار ہوٹل میں جو آملیٹ کھا رہا ہے وہ گندے انڈے کا بنا ہوگا یا اس کی پلیٹ کا گوشت مری ہوئی مرغی یا ٹھنڈی مرغی کا ہوگا اور اس میں سے بو بھی آئے گی اور کیڑے بھی نکل آئیں گے یا اسے جس کام کے لیے ہائر کیا جائے گایہ وہ کام سرے سے نہیں جانتا ہو گا یا یہ سوچتا ہو گا میں نے اگر اے سی یا ٹی وی لگوانا ہے تو پھر مجھے لگانے والے کے سر پر کھڑا ہونا پڑے گا کیوں کہ یہ جاتے جاتے میری کوئی اور چیز توڑ جائے گا یا دیوار گندی کر جائے گا‘ اسے یہ خطرہ بھی نہیں ہوگا اس کا پلمبر اصل میں پلمبر نہیں یا اس کا الیکٹریشن‘ الیکٹریشن اور پینٹر اصل میں پینٹر نہیں یا اس کی گاڑی میںائیر بیگز نہیں ہوں گے یا گاڑی کا مکینک مکمل نالائق اور ان پڑھ ہو گا یا اس کے گھر کی بجلی اچانک چلی جائے گی یا یہ دس پندرہ بیس کے وی کے سولر پینلز لگا لے گا تو گورنمنٹ اچانک پالیسی بدل لے گی۔

حکومت اس کے اکاؤنٹس سے پیسے نکال لے گی یا اس کی نوکری اچانک چلی جائے گی یا اس کے سامنے موجود شخص کا سی وی غلط ہو گا اور یہ ایم بی اے کے باوجود بزنس سے مکمل نابلد ہو گا اور یہ کسی بھی وقت جاب چھوڑ کر چلا جائے گا یا کمپنی سے ایڈوانس لے کر غائب ہو جائے گا یا یہ دفتر کے اوقات میں سارا دن موبائل فون پر لگا رہے گا یا کوئی شخص ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی لے کر سڑک پر آ جائے گا یا ’’ون ویلنگ‘‘ کرے گا یا اووراسپیڈ ہو گا۔

ہیرو یہ بھی نہیں سوچ سکتا اس کے گھر کی گیس اچانک غائب ہو جائے گی یا پٹرول پمپس سے پٹرول اچانک ختم ہو جائے گا یا ملک میں اچانک چینی مہنگی ہو جائے گی یا آٹا غائب ہو جائے گا یا پولیس اسے اچانک اٹھا لے جائے گی یا یہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جائے گا اور مکمل طور پر مسنگ ہو جائے گا یا ریاست اسے سڑکوں پر ذلیل کرے گی یا اس کا ووٹ کسی دوسرے امیدوار کے باکس سے نکل آئے گا یا مالک مکان اسے کسی بھی وقت مکان سے نکال دے گا یا اس کی پراپرٹی پر کوئی دوسرا شخص قبضہ کر لے گا یا اس کا بچہ میدان میں کھیلتا ہوا اغواء ہو جائے گا اور اسے تاوان ادا کرنا پڑے گا یا پولیس اس کی عزت نفس کچل کر رکھ دے گی یا اسے عدالت سے انصاف نہیں ملے گا یا پھر حکومت عدالتوں میں اپنی مرضی کے جج تعینات کر کے مرضی کے فیصلے لے لے گی یا کوئی سیاسی جماعت کسی بھی وقت سرکاری املاک توڑ دے گی یا سوشل میڈیا پر کسی بھی وقت ہیرو کی ٹرولنگ شروع ہو جائے گی یا کسی بس‘ ٹرین یا ریستوران سے اس کا بیگ یا موبائل فون چوری ہو جائے گا یا کسی گلی میں کوئی پستول دکھا کر اس سے موبائل اور پرس چھین لے گا یا اس کے ٹیمپل یا مسجد میں بم دھماکا ہو جائے گا یا اس کا مولوی اسے کسی دوسرے فرقے کے خلاف اکسا دے گا یا اس پر گستاخی کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیا جائے گا یا یہ بے گناہی کے باوجود جیلیں بھگتے گا یا اس کی گھر کی ٹونٹی سے پانی نہیں آئے گا یا اسے کسی پبلک پلیس پر واش روم نہیں ملے گا  یا اس کی فلائیٹ وقت پر نہیں اڑے گی یا درزی اس کے کپڑے خراب کر دے گا یا پھر ڈرائی کلین کے دوران اس کے کپڑوں پر استری کا نشان پڑ جائے گا‘ ہیرو کے ذہن پر ٹینشن کی کوئی ایپ نہیں کھلتی‘ اس پر کوئی اسٹریس نہیں آتا‘یہ ذہنی طور پر مکمل آزاد رہتا ہے۔

 فری مائینڈ‘ یہ کام کرتا ہے اور اپنی گھریلو زندگی کو انجوائے کرتا ہے جب کہ میرے ذہن میں خوف‘ غیر یقینی‘ عدم استحکام اور انہونی کے ہزاروں پیجز اور درجنوں ایپس کھلی ہوئی ہیں اور یہ دن میں میری 81 فیصد بیٹری کھا جاتی ہیں‘ میرے پاس صرف 19 فیصد توانائی بچتی ہے اور اس میں سے بھی 18 فیصد’’ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ میں انھیں جلد سے جلد کیسے سیٹل کر سکتا ہوں اور کیا یہ میری دکان‘ میری فیکٹری‘ میرا بزنس یا میری جائیداد سنبھال سکیں گے وغیرہ وغیرہ‘‘ جیسے خوف میں ضایع ہو جاتی ہے یوں میرے پاس باقی صرف ایک فیصد بیٹری بچتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے میں اس ایک فیصد سے کیا اکھاڑ لوں گا‘ کیا توڑ لوں گا اور میں کیا تبدیل کر لوں گا لہٰذا اگر ریاست مجھ سے کام لینا چاہتی ہے تو اسے پہلے خوف کی یہ ساری ایپس اور غیریقینی کے یہ تمام پیجز بند کرنا ہوں گے تاکہ میرا مائینڈ فری ہو سکے اور میں جاپان کے ہیرو کی طرح پرفارم کر سکوں ورنہ میں روزانہ یہ سوچ سوچ کر مر جاؤں گا ’’میرا شہد اصلی ہے یا جعلی اور میری میز پر پڑا دودھ کیا واقعی بھینس نے دیا تھا؟‘‘۔

متعلقہ مضامین

  • حاجی کیمپ کے اردگرد تجاوزات کی بھرمار، روڈ بند، ٹریفک جام معمول 
  • 81فیصد
  • ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران ہوئی جہاز کی بتیاں بجھا کیوں دی جاتی ہیں؟اصل وجہ جانئے
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ
  • دنیا امریکا پر آ کر ختم نہیں ہو جاتی، وکٹر گاؤ
  • متنازع کینال منصوبے پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے، شرجیل میمن
  • وقت گزر جاتا ہے
  • جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
  • حکومت کے وکلاء کیساتھ معاہدے میں کبھی دھوکا نہیں ہو گا: اعظم نذیر تارڑ