Express News:
2025-04-15@09:03:04 GMT

ٹرمپ ٹیرف مضمرات

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کی واحد سپرپاور کے صدر کا حلف اٹھا کے ابھی تین ماہ بھی نہیں گزرے کہ ان کے بعض فیصلوں اور اقدامات سے دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ لہولہان غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور دیگر ممالک میں ان کی آبادکاری کے اعلان سے لے کر محصولات میں اضافے کے تازہ اعلان تک ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے اور اقدامات عالمی سطح پر تنقید اور تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ نئی ٹیرف پالیسی کے بعد نہ صرف امریکا کی اپنی معیشت بلکہ عالمی معاشی نظام بھی بری طرح متاثرہوا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے چین، روس، یورپی و دیگر ممالک سے امریکا درآمد کی جانے والی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد امریکی صنعت و تجارت کو بیرونی دنیا کے منفی اثرات سے بچانا ہے۔ اگرچہ کچھ امریکی کمپنیوں کو وقتی طور پر اس سے فائدہ ضرور ہوا لیکن دوسری جانب بعض اشیا کی قیمتیں عام صارف کی دسترس سے باہر ہوگئیں اور مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

بعینہ امریکی اقدام کے جواب میں بعض ممالک نے امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کر دیے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا بالخصوص امریکا اور چین اس تجارتی جنگ میں آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ روس، چین اور یورپی یونین نے ٹرمپ ٹیرف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے عالمی تجارتی نظام پر حملہ قرار دیا ہے۔

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے اعلان کے فوری بعد دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں۔ تاجروں کے کھربوں روپے ڈوب گئے اور تیل کی قیمتیں بھی کم ہو گئیں۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخ ساز مندی دیکھی گئی اور 100 انڈیکس 3,882 پوائنٹس کم ہو گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات پڑنے کے پیش نظر حکومتی سطح پر ایک اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجا جا رہا ہے جس میں معروف برآمد کنندگان اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔

پاک امریکا تجارتی سرگرمیوں کا دائرہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ٹرمپ کے تازہ فیصلے سے تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کی گزشتہ بیوقوف قیادت کو دنیا نے بری طرح استعمال کیا۔ ہم ٹیرف کے ذریعے اربوں ڈالر امریکا لا رہے ہیں۔ جب کہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ امریکی ٹیرف سے عالمی کساد بازاری کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ تجارت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹینا جارجیوا کا موقف ہے کہ امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔

محصولات میں یکدم اضافے کے ٹرمپ فیصلے پر عالمی سطح پر منفی ردعمل سامنے آنے کے بعد امریکی صدر نے ان ممالک پر جوابی ٹیرف 90 روز کے لیے معطل کر دیا جنھوں نے امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیکس عائد نہیں کیے تھے،ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جب کہ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ چین سمیت دنیا بھر کے ممالک سے ٹیرف کے مسئلے پر بات چیت اور ڈیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا کا اصل نشانہ چین ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے اقدامات سے چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

چین بڑی خاموشی اور حکمت کے ساتھ اپنی معاشی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ امریکا کو خطرہ ہے کہ آیندہ چند برسوں میں چین دنیا کی سپر معاشی قوت بن کر ابھر سکتا ہے جو امریکی کی ’’سپرمیسی‘‘ کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اسی باعث وہ چین پر معاشی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے لیکن بظاہر چین امریکا کے ساتھ ٹرمپ کی شرائط پر کوئی ڈیل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے چین نے بھی صدر ٹرمپ کے ٹیرف فیصلے کے بعد جوابی اقدام اٹھاتے ہوئے امریکا سے درآمد ہونے والی تمام امریکی مصنوعات پر 84 فی صد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے بات چیت کرنے اور چین کے اشاروں کے بعد70 سے زائد ممالک نے ان کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی ہے۔

صدر ٹرمپ کے ٹیرف اعلان سے عالمی سطح پر معاشی جنگ اور تجارتی تنازعات میں اضافہ ہو سکتا ہے بالخصوص چین اور امریکا کے درمیان معاشی کشمکش سے پوری دنیا کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہو سکتا ہے صدر ٹرمپ کو ٹیرف فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر امریکی معاشی نظام بھی ڈگمگا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی سطح پر ٹرمپ کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

عالمی کسادبازاری اور پاکستانی معیشت

وزیراعظم میاں شہبا زشریف بیلاروس کے کامیاب دورے کے بعد ترکیہ پہنچ گئے ہیں، پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ان کے یہ دورے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، بیلاروس کے دورے سے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں، دونوں ملکوں نے دفاع، تجارت اور ماحولیاتی تحفظ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر کے آگے بڑھنے کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور بیلاروس کے صدر لوکاشینکو کی ملاقات کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بیلا روس بھیجا جائے گا۔ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو اس کے پاکستان کی معیشت پر اچھے اثرات ہوں گے اور بے روزگاری بھی کم ہو گی۔

اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی لیبر کو عالمی معیار کے مطابق تیار کرنے کی حکمت عملی بنائی جائے۔ پاکستانی ہنرمند خصوصاً الیکٹریشنز اور پلمبرز وغیرہ کی تربیت اور ٹریننگ انتہائی ناقص ہے۔ ان شعبوں کی بیرون ملک بہت زیادہ مانگ بھی ہے اس لیے حکومت کو اس جانب زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

پاکستان اور بیلاروس کی حکومتوں نے ری ایڈمیشن کے معاہدے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی وزارت داخلہ کے درمیان تعاون اور وزارت دفاع کے درمیان تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ دونوں ممالک نے جمہوریہ بیلاروس کی ریاستی اتھارٹی برائے ملٹری انڈسٹری اور دفاعی پیداوار کی وزارت کے درمیان 2025-2027 کے لیے فوجی تکنیکی تعاون کے پروگرام ( روڈ میپ ) پر دستخط کیے۔

ماحولیاتی تحفظ، پوسٹل سروسز، بزنس سپورٹ، تجارت کے فروغ اور تجارتی اداروں کے درمیان تعاون کے لیے دوطرفہ معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔ شہباز شریف اور لوکاشینکو نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بیلاروس کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع اور سازگار ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بیلاروس کی زرعی آلات اور مشینری میں بھی بڑی مہارت ہے۔ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے بیلاروس کے تعاون کے خواہاں ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ زراعت اور غذائی تحفظ کے شعبوں میں تعاون میں اضافہ اور الیکٹرک بسوں اور زرعی مشینری کی تیاری میں ممکنہ مشترکہ منصوبے ایسے اقدامات ہیں جو ہماری دوستی کو دیرپا شراکت داری میں تبدیل کرنے میں معاون ہوں گے ۔ صدرالیگزینڈرلو کاشینکو نے کہا کہ بیلاروس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ دونوں کے مابین تعاون کے فروغ کے وسیع مواقع ہیں۔ انھوں نے ’’ پاکستان بیلاروس بزنس فورم ‘‘ کے انعقاد کو تجارت کے فروغ کے لیے بہت اہم قرار دیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ بیلاروس انتہائی اہم اس لیے ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں پاکستان عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ موجودہ حکومت اور نگران حکومت کے دور میں پاکستان عالمی سطح پر تنہائی سے نکلا ہے۔

ملکی معیشت پر دباؤ کم ہوا ہے، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات خاصی حد تک آگے بڑھے ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بھی نکل چکا ہے۔ یقینا یہ خارجہ پالیسی کی کامیابیاں ہیں۔ اب عالمی سرمایہ کار پاکستان آ کر مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والی منرل کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان نے معاشی اصلاحات بھی کی ہیں جس کے اثرات بھی مثبت نظر آتے ہیں۔ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں بھی کمی کی ہے۔

سابق سوویت یونین کی آزاد ریاستوں میں بیلاروس اور قازقستان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ یوکرین بھی خاصا ترقی یافتہ تھا لیکن یوکرین کی معیشت کو حالیہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بیلاروس پاکستانیوں کے لیے خاصا شناسا ملک ہے۔ پاکستان کے کسان بیلارس ٹریکٹرز کے نام سے ابھی تک واقف ہیں۔ یہ ٹریکٹر اپنی مضبوطی، پائیداری اور پاور کے اعتبار سے سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا۔

بیلاروس میں تعلیم کی شرح بھی بہت بلند ہے۔ پاکستان کے لیے بیلاروس بہت سازگار ملک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے انویسٹر کے لیے بھی بیلاروس خاصا پرکشش ثابت ہو سکتا ہے۔ آج کی کسادبازاری اور عالمی تجارتی محاذآرائی کے درمیان بیلاروس خاصا محفوظ ملک ہے جو عالمی کھینچاتانی سے خاصا دور ہے۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو ٹیرف وار چھیڑ رکھی ہے، اس نے دنیا کے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گزشتہ روز بھی میڈیا نے بتایا ہے کہ چین نے امریکی ٹیرف میں اضافے کے بعد 12 اپریل سے امریکی اشیاء پر ڈیوٹی بھی84  فیصد سے مزید بڑھا کر 125 فیصد کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔

ساتھ ہی چین نے عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی اومیں مقدمہ بھی دائر کردیا ہے۔ چین کی وزارت تجارت نے جمعہ کو کہا ہے کہ امریکی ٹیرف کے اقدامات یکطرفہ غنڈہ گردی اور زبردستی ہیں جو ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے تحفظ کرے گا اور کثیرالجہتی تجارتی نظام اور بین الاقوامی اقتصادی و تجارتی نظام کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا۔چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے امریکا پرزوردیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی غلطیوں کو درست کرے اور چین پر عائد تمام یکطرفہ ٹیرف اقدامات کو منسوخ کرے۔

 امریکا اور چین کے درمیان تجارتی چپقلش میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا خیال تھا کہ امریکی ٹیرف کے جواب میں چینی حکومت ٹیرف نہیں بڑھائے گی لیکن امریکی انتظامیہ کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور چین نے اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر بتایا ہے کہ چینی معیشت میں خاصا دم ہے اور وہ امریکی اقدامات کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ چین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہالی وڈ کی فلموں کی درآمد پر فوری پابندی لگانے جا رہا ہے۔

چین گزشتہ تیس سالوں سے دس ہالی وڈ فلمیں سالانہ درآمد کرتا آ رہا ہے۔ چین اگر یہ اقدام کرتا ہے تو ہالی وڈ فلم انڈسٹری کی آمدنی پر بھی اثر پڑے گا۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں اپنی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے یورپ کے خلاف ٹیرف کی جنگ جیت لی ہے تاہم چین کے خلاف اقدامات کی انھیں قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

چین کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے یورپ نے امریکا کے خلاف جوابی ٹیرف لگانا بند کردیے ہیں کیونکہ انھیں احساس ہوگیا ہے کہ چین کے خلاف ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔آخرنتائج ہمارے حق میں ہی آئیں گے۔

انھوں نے ٹیرف معطلی کے90 روز کے دورانیے میں مزید توسیع کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیرف معاملات بات چیت سے حل ہونے کی قوی امید ہے، جوں جوں بات چیت آگے بڑھے گی ٹیرف کی مدت میں توسیع ممکن ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ معاہدہ کرنا پسند کریں گے، اگرمعاہدہ نہیں ہوتا تو ہم وہیں چلے جائیں گے جہاں تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ ٹیرف عائد کرنے کے نتیجے میں چین سے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کی جائیں لیکن فی الحال چین کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا جس سے یہ نظر آئے کہ وہ امریکا کو کسی قسم کی رعایت دے گا۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ دنیا نے تجارت کے معاملے پر ہم سے انصاف نہیں کیا، اب سب چیزیں بہتری کی طرف جا رہی ہیں۔ مہنگائی، بے روز گاری، شرح سود میں کمی ہورہی ہے، محصولات سے حاصل ہونے والے پیسے سے قرض چکائیں گے۔

گزشتہ روز ہی جب صحافیوں نے امریکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی کے بارے میں امریکی صدرسے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اڑھائی گھنٹے سے میٹنگ میں ہوں، مارکیٹ دیکھ نہیں سکا حالانکہ جمعہ کو امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے علاوہ دیگر امریکی ڈالرکی قدر بھی کم ہوگئی تھی۔

سرمایہ کاروں نے نت بدلتے حالات کودیکھتے ہوئے امریکی بانڈزبھی ڈمپ کردیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس صورت حال کا پتہ نہ ہو۔ بہرحال ابھی وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور اپنی اسٹرٹیجی پر عمل کر رہے ہیں۔ جمعہ کو سوشل میڈیا پرجاری بیان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے جوابی اقدامات کے باوجود ان کی ٹیرف پالیسی ٹھیک جا رہی ہے،دنیا ہمارے ساتھ مل رہی ہے ۔

چین کے لیے ٹیسلا کی کاروں کے نئے آرڈرز منسوخ کردیے ہیں، ٹیسلا نے اپنی چینی ویب سائٹ پر کچھ ماڈلز کی نئی بکنگ لینا بند کر دی ہے۔ اس دھینگامشتی کے دوران ہی عوامی جمہوریہ چین کے صدر نے اسپین کے وزیرِ اعظم سے ملاقات کی اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ چین کے ساتھ مل کر ٹرمپ حکومت کی ’یکطرفہ اجارہ داری‘ کی مخالفت کرے۔ چین کے صدر اگلے ہفتے ویتنام، کمبوڈیا اور ملائیشیا کا دورہ کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • ٹرمپ کا دوٹوک اعلان: چین ہم سے بدسلوکی کرے گا تو ٹیرف سے نہیں بچے گا
  • معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی
  • ٹرمپ ٹیرف عالمی معاشی جنگ...گلوبل اکنامک آرڈر تبدیل ہوگا؟؟
  • چین کا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر طنز، سوشل میڈیا پر میمز وائرل
  • ٹرمپ نے اسمارٹ فونز، کمپیوٹر اور الیکٹرانک درآمدات کو جوابی ٹیرف سے چھوٹ دیدی
  • ’ٹیرف وار‘ کے چلتے ٹرمپ نے چینی الیکٹرونک کمپنیوں کو بڑا ریلیف دیدیا
  • عالمی کسادبازاری اور پاکستانی معیشت
  • تجارتی جنگ اور ہم