سابقہ اہلیہ سے طلاق کیوں ہوئی؟ عمران خان نے بالآخر راز کھول دیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
ممبئی(شوبز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار عمران خان، جو اپنی سادگی اور منفرد اداکاری کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں، انہوں نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اپنی سابقہ شادی، بیٹی امامہ کے ساتھ تعلق، اور ذاتی جدوجہد کے حوالے سے دل کی باتیں بیان کیں۔
عمران خان نے 2011 میں اونتیکا ملک سے شادی کی تھی اور 2014 میں ان کی بیٹی امامہ کی پیدائش ہوئی۔ تاہم، 2019 میں عمران اور اونتیکا کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ اب عمران خان اداکارہ لیکھا واشنگٹن کے ساتھ تعلق میں ہیں۔
’ہم ایک دوسرے کو بہتر انسان بننے میں مدد نہیں دے پا رہے تھے‘ – عمران خان
فلم فیئر کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے اپنی اور اونتیکا کی شادی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رشتہ انہوں نے محض انیس سال کی عمر میں شروع کیا تھا، اور اُس وقت اُن کے ارادے نیک تھے، لیکن وقت کے ساتھ وہ رشتہ ایک جگہ آ کر رُک گیا۔
ان کے بقول: ’میں نے یہ رشتہ بہت چھوٹی عمر میں شروع کیا۔ اُس وقت ہم دونوں کی نیت نیک تھی۔ لیکن جب آپ نوعمری میں کوئی طویل مدتی رشتہ شروع کرتے ہیں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے تعلق کے انداز وہی کے وہی رہ جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ بہتر نہیں ہو پاتے۔ ہم ایک دوسرے کو بہتر انسان بننے میں مدد نہیں دے پا رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اونتیکا سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو وہ اپنی ذہنی صحت کی بحالی کے سفر کے وسط میں تھے۔
بیٹی امامہ کے ساتھ قریبی رشتہ عمران کی زندگی کا قیمتی ترین پہلو
عمران خان نے انٹرویو میں اپنی بیٹی امامہ کے ساتھ رشتے پر بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک کھلا، دوستانہ اور پُراعتماد رشتہ بنانا چاہتے تھے اور خوشی ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہے۔
ان کے الفاظ میں، ’میری اور امامہ کی بہت ہی قریبی اور کھلی ڈھلی دوستی ہے، جو میں ہمیشہ چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے میرے ساتھ مکمل راحت محسوس ہو، کہ میں اُس کے لیے ہوں، اور وہ بلا جھجک مجھ سے ہر بات کر سکے۔‘
’رات کو جب وہ دل کی باتیں کرتی ہے، تو وہ لمحات میرے لیے انمول ہیں‘
عمران نے مزید بتایا کہ وہ لمحے جب وہ اپنی بیٹی کو سونے کے لیے لٹاتے ہیں، اُن کے لیے جذباتی طور پر بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’رات کے وقت جب امامہ سونے جا رہی ہوتی ہے اور کمرے کی روشنی مدھم ہوتی ہے، وہ اپنے دل کی باتیں کرتی ہے۔ ان چند منٹوں میں جب وہ اپنی جذباتی کیفیات میرے ساتھ بانٹتی ہے، تو میں بے حد جذباتی ہو جاتا ہوں۔ ایسے لمحات واقعی انمول ہوتے ہیں۔‘
عمران خان کا یہ کھرا انداز، اپنے جذبات اور رشتوں کے بارے میں کھلے دل سے بات کرنا، اُن کی شخصیت کو مزید منفرد اور متاثر کن بناتا ہے۔
مزیدپڑھیں:پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پنک مون کا شاندار نظارہ کیاجا سکےگا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بیٹی امامہ انہوں نے کے ساتھ وہ اپنی
پڑھیں:
ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔
تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔
چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔
پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔